کالم بیتی

جمعہ 1 اکتوبر 2021

Yasir Farooq Usman

یاسر فاروق عثمان

میں ایک کالم ہوں۔بالحاظ انگریزی لغت ویسے تو لوگ مجھے کھمباسمجھتے ہیں ہوں لیکن اخباری دنیا میں بھی مضمون کی صورت کاایک کھمبا ہی ہوں۔تاہم اگر آپ مجھے بجلی کا وہ کھمبا سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں جس پر چڑھ کر لوگ خودکشی کرلیتے ہیں توفوراً سے پہلے یہ خیال تبدیل کرلیں کیونکہ اپنے تخلیق کار کے علاوہ میں کسی کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیتا۔

بظاہر ایک عام تحریر کی صورت میں ہوتا ہوں لیکن اتنی زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہوں کہ اخبار کے ایڈیٹر مجھے عام طور پر اداراتی صفحے پر جگہ دیتے ہیں۔ جس طرح عمارتوں میں کھمبوں کی اہمیت ہوتی ہے، بالکل اسی طرح اخباری دنیا میں میری بھی اہمیت ہوتی ہے۔ اخبار بین حضرات مجھے پڑھنے کے لیے اخبارات خریدتے ہیں۔ سائنسی،ادبی، سماجی، سیاسی، مذہبی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین بالخصوص کثیرالمطالعہ اور کثیر النوع معاملاتِ زندگی پر عقاب کی نگاہ رکھنے والے صحافی اخبار بینوں کے لیے منفرد، سنجیدہ، مزاحیہ، تنقیدی، علمی یا اصلاحی انداز میں اپنے مشاہدات کا نچوڑ پیش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تو میرے شائقین دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں سیاستدان، فوجی، پولیس، ڈاکٹرز، استاد، انجینئر، آرٹسٹ، طالبعلم، مزدور، فنکار، ڈرامہ نگار، شاعر، کاروباری حضرات، مذہبی و سماجی شخصیات اوربھانت بھانت کے افراد شامل ہیں۔ جب بھی ان افراد کا دل کرتا ہے، مجھ سے اپنا دل بہلاتے ہیں یا اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں لیکن میں کبھی بھی بے وقت کی بے آرامی سے تنگ نہیں پڑتا کیونکہ جب کوئی مجھے پڑھنا شروع کرتا ہے تو میرے چہرے پر رونق آ جاتی ہے اور میں فوراً سے پہلے اخبار سے چھلانگ لگا کر اپنے پڑھنے والے کے دل و دماغ کا حصہ بن جاتا ہوں۔

میرے رنگ بھی موسم کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔ ویسے تو انسانوں کی دنیا میں چار موسم ہوتے ہیں جو ارضیاتی تغیرات کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں لیکن میرے موسم کالم نگار کے علم، تجربے، مشاہدے کی صلاحیت، موضوع پر گرفت، طبیعت، موقع کی مناسبت، ایڈیٹر کی کاٹ چھانٹ اور قارئین کے رحجان کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔یاد رہے کہ مجھے تخلیق کرنے والے کو کالم نگار کہتے ہیں۔

میں اپنے تخلیق کار کا محبوب ہوتا ہوں اور وہ میری عمدہ تخلیق کی خاطر اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اکثر اوقات میں اپنے تخلیق کار کی خانگی زندگی کے لیے بھی اسوقت خطرہ بن جاتا ہوں جب وہ اخبار بینوں کے سامنے مجھے بہترین انداز میں پیش کرنے کی خاطر گوشہء تنہائی میں میرے ساتھ مکمل یکسو ہو جاتا ہے اورایسے وقت میں کالم نگار کے گھر میں موجود میری سوکن نما خاتون خانہ حسد کی آگ میں جل بھن کر میرے تخلیق کار پر شدت سے حملہ آور ہوتی ہے اور اگر کالم نگار یہ حملہ خوبصورتی سے روکنے میں کامیاب ہو جائے تو پورے گھر کا موسم سہاناسہانا ہو جاتا ہے جسکے نتیجے میں قارئین کو خوبصورت تحریر پڑھنا نصیب ہو جاتی ہے۔

لیکن اگر یہ حملہ نہ رک سکے توایسی صورت میں اخبار بین نتیجے میں سامنے آنے والی میری صورت کو دیکھ کر حزن و ملال کی عملی صورت بنتے ہوئے اخبار کو اٹھا کر ایک طرف پٹخ دیتے ہیں جس سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ میرے اکثر تخلیق کار مجھے تخلیق کرنے کے لیے طویل عرصہ محنت کرتے ہیں، لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں، مختلف معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں، کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر گوشہء نشین ہو کر مکمل یکسوئی کے ساتھ مجھے لفظ بہ لفظ بنانا شروع کرتے ہیں۔

اس دوران اکثر کالم نگار اپنے قلم کے نشتر سے مسلسل میری خراش تراش میں مصروف رہتے ہیں اور کبھی کبھی تو جیسے ہی میری تخلیق تکمیل کے قریب پہنچتی ہے تو کالم نگار میرا قیمہ بنا کر کوڑے دان کے حوالے کرکے نئے سرے سے تخلیق کے عمل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر میرے منہ سے یہ لفظ نکلتے نکلتے رہ جاتے ہیں کہ  ”کالم ہوں تیرا، کوئی ردی تو نہیں جسے جب چاہا اٹھا کر پھینک دیا“، لیکن شکر ہے کہ یہ الفاظ نکل ہی نہیں پاتے ورنہ کالم نگاروں اور میرے درمیان پانی پت کی کئی جنگیں ہو چکی ہوتیں۔

میری تخلیق مکمل ہوتے ہی کالم نگار مجھے دنیا کا سامنا کرنے کے لیے اخبارات کے حوالے کرتا ہے جہاں مجھے مختلف صحافتی معیارات سے نہلا دھلا کر اداریے والے صفحات کی زینت بنایا جاتا ہے۔ یہ میری زندگی کا کھٹن ترین لیکن تجربات سے بھرپور وقت ہوتا ہے۔ میں جیسے ہی اخبار کے دفتر سے باہر آتا ہوں تو اخبار بین بے تابی کے ساتھ مجھ پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور جب تک مجھے مکمل طور پر پڑھ نہیں لیتے، میری جان نہیں چھوڑتے لیکن آپکو تو پتا ہے کہ میں یہی چاہتا ہوں کہ لوگ مجھے پڑھتے رہیں کیونکہ اسی میں میری خوشی پنہاں ہوتی ہے۔

میرے پڑھنے والے میری مدد سے اپنے علم میں اضافہ کرکے محفلوں کی جان بنتے ہیں اور بات بات پر مجھ سے حاصل کردہ معلومات پر سیر حاصل تنقیدی و عمومی گفتگو کرتے ہیں۔ بسا اوقات تو مجھے اہم ترین معاملات میں حوالے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اسوقت میں خود کو ہوا میں اڑتا محسوس کرتا ہوں۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ میری وجہ سے کئی انسانوں کے مسائل حل ہوئے اور کافی چہروں پر مسکراہٹیں بھی آئیں۔

صدیوں سے مجھے تخلیق کیا جاتا رہا لیکن کبھی میرے دل کا حال بیان نہیں کیاگیالیکن میں نے امید برقرار رکھی اورمسلسل اس گھڑی کے انتظار میں تھا کہ کوئی آئے اور میرے دل کا حال دنیا والوں کے سامنے پیش کرے۔ آخر میری سنی گئی اور آج میں آپ کے سامنے اپنے دل کا حال بیان کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا ہوں۔ میری آپ بیتی آپ سب کو کیسی لگی، یہ ضرور بتائیے گا، میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔ فقط آپ کا اپنا، پیارا کالم۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :