
تعلیم ۔ تجارتی یا فلاحی سرگرمی؟
بدھ 22 ستمبر 2021

یاسر فاروق عثمان
(جاری ہے)
اس آئینی ذمہ داری کے سلسلے میں 20 کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ریاست نے صرف صوبہ پنجاب میں باون ہزار سے زائد سرکاری سکول بنائے ہیں جہاں چار لاکھ اساتذہ سوا کروڑ سے زائد بچوں کو پڑھانے کے لیے وقف ہیں۔ کیا ان سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ یہاں بلامعاوضہ تدریسی فرائض سرانجام دیتے ہیں اور کیا یہاں طلباء پر کسی قسم کے اخراجات نہیں ہوتے؟ جی نہیں، حکومت کو نہ صرف یہاں پڑھانے والے اساتذہ کو ہر سال اربوں روپے تنخواہوں کی مد میں دینے پڑتے ہیں بلکہ متفرق تعلیمی اخراجات کی ادائیگی اس کے علاوہ ہوتی ہے۔
ذہن میں سوال آتا ہے کہ جب تعلیم مفت ہے اور ریاست کو اس کے عوض کچھ نہیں ملتا تووہ یہ اخراجات کیسےپورے کرتی ہو گی؟کیا ریاست کے پاس کوئی لامحدودخزانہ ہوتا ہے جس سے یہ اخراجات پورے ہوتے ہیں؟ بظاہر مفت نظر آنے والی یہ سہولت دراصل ہر گز ہرگز مفت نہیں۔ آئیے ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق مذکورہ بالا و دیگر ریاستی اخراجات کو پورا کرنے کے سلسلے میں ریاست شہریوں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکس یعنی فیس عائد کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کی آمدن چحے لاکھ روپے سالانہ سے زائد ہے تو ریاست اس شخص کو حکم دے گی کہ وہ اپنی چحے لاکھ روپے سے زائدآمدن پر پانچ فیصد آمدن ٹیکس دے گااور اگر اس سے کم آمدنی والا شخص ایک صابن بھی خریدتا ہے تو اس پر سترہ فیصد جنرل سیلز ٹیکس ادا کرے گا۔ یہ دونوں طرح کے ٹیکس یا فیسیں مشترکہ طور پر حکومت کو وہ مالی وسائل مہیا کریں گے جو تعلیمی مقاصد پر اٹھنے والے اخراجات کی ادائیگی کے لیے ضروری ہیں۔ اگر کوئی شخص آمدن ٹیکس نہیں دے گا تو اسے قانونی کارروائی یا قید کی صورت میں سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اگر کوئی شخص صابن پر سیلز ٹیکس دینے سے انکاری ہو گا تو اسکو صابن بھی نہیں ملے گا۔ ثابت یہ ہوا کہ دونوں طرح میں سے کسی بھی ٹیکس کی عدم ادائیگی کی صور ت میں متعلقہ فرد آزادانہ گذر بسر یا کسی شے کی خریداری کے قابل نہیں ہو گا۔ اب اگر کڑیوں سے کڑی ملا کر دیکھا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ حکومت نے یہ ٹیکسز(فیسیں) اس لیے عائد کیں تاکہ ان کے ذریعے عوام کو انکی مطلوب (آئینی )سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ پس ثابت ہوا کہ کسی بھی فلاحی سرگرمی کے تسلسل کے لیے کچھ امور مثلاً ٹیکسوں کو عائد کرنا یا فیس وصولی ناگزیر ہوتے ہیں جیسا کہ آئین کی شق نمبر 25اے کے تحت مفت تعلیم کی فراہمی کے لیے سہولت کا فائدہ اٹھانے یا نہ اٹھانے والے تمام افراد سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں فیسوں کی وصولی کی جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کے گاڑی چلانے کے لیے پٹرول ڈالنااور زندہ رہنے کے لیے کھانا کھانا اور ہم انہیں کسی طرح نفع آور مقاصد قرار نہیں دے سکتے۔
سوال اٹھتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں سرکاری تعلیمی اداروں کی موجودگی کے باوجود پاکستان کے ہر صوبے میں ایک بڑی تعداد میں نجی تعلیمی ادارے کیوں موجود ہیں اور اتنے سارے سرکاری سکول ہونے کے باوجود ان نجی تعلیمی اداروں میں طلباء کی بھرمار کیوں ہے؟ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ آئین کی شق نمبر 25 اے کے تحت ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی اور نجی تعلیمی اداروں کے قیام کی اجازت ہی نہ دیتی لیکن چونکہ ریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں آ رہے تھے کہ وہ ہرایک کو تعلیم فراہم کر سکتی تو اس کے لیےریاست نے قوانین وضع کرتے ہوئے افراد کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنے وسائل سے نجی تعلیمی ادارے قائم کرتے ہوئے ریاستی ذمہ داری کی انجام دہی میں ہاتھ بٹائیں اور چونکہ انہیں کسی طرح کی مالی مدد نہیں دی جائے گی تو وہ اپنے اخراجات پورےکرنے کےلیے طلباء سے یا انکے سپانسرز سے مناسب فیسیں (خدمات کی فراہمی کے عوض ایک طرح کا ٹیکس)وصول کریں ۔ ان افراد نے نجی تعلیمی ادارے قائم کیے اور ریاست کے مقابلے میں اپنے محدود وسائل سے طلباء کو مناسب ٹیکس/معاوضے کے عوض ہر ممکن طور پر بہترین تعلیمی سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی۔ طلباء کو اپنی مرضی کے نجی تعلیمی اداروں میں بالکل اسی طرح داخلے لینے کا کا اختیار دیا گیا جیسا کہ انہیں سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کا اختیار حاصل ہے۔اس طرح یہ واضح ہوتا ہے کہ نجی تعلیمی ادارے ہر گز نفع آوری کے لیے نہیں قائم کیے گئے بلکہ آئین کے تحت ریاستی وضع شدہ قوانین نے انکے قیام کا جواز فراہم کیا اور یہ ادارے دراصل تعلیم کے فلاحی نظام میں ریاست کا ایک فلاحی جزو ہیں اورریاست کے وضع شدہ خطوط پر تعلیم کی فراہمی کا ایک فلاحی فرض سرانجام دے رہے ہیں اور انکی جانب سے فیسوں کی وصولی کو بالکل اسی طرح سے تجارتی سرگرمی قرار نہیں دیا جا سکتا جس طرح ریاست کی جانب سے مفت تعلیم کی فراہمی کے لیے ٹیکسوں کی وصولی کو تجارتی سرگرمی نہیں قرار دیا جا سکتا۔
اب جبکہ یہ ثابت ہوا کہ تعلیم کی فراہمی ایک فلاحی سرگرمی ہے تو آئندہ کالم میں ہم ایک نظر سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے پر ڈالیں گے جس کو جواز بناتے ہوئے پاکستان بھر کے کنٹونمنٹس کے رہائشی علاقوں میں قائم صرف نجی تعلیمی اداروں کو یہ حققیقت فراموش کرتے ہوئے کاروباری مراکز میں منتقلی کے لیے مجبورکیا جا رہا ہے کہ تعلیم خالصتاً ایک فلاحی سرگرمی ہے اور فلاحی سرگرمیاں کاروباری مراکز میں سرانجام نہیں دی جاتیں ۔ آئندہ کالم میں ہم اس امر کا بھی احاطہ کریں گے کہ اگر ایسا ہوا تو اہم ترین آئینی ذمہ داری کی سرانجام دہی میں شریک نجی تعلیمی اداروں اوروہاں زیر تعلیم لاکھوں کروڑوں بچوں بالخصوص بچیوں اور خواتین اساتذہ پر کیا مضر اثرات مرتب ہوں گے اور ان لاکھوں والدین کے ان خوابوں کا کیا بنے گا جو انہوں نے اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کی خاطر سجا رکھے ہیں؟۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
یاسر فاروق عثمان کے کالمز
-
جدید موبائل ایپس کا کرشمہ ۔ سفارشی نظام سے چھٹکارا
جمعہ 5 نومبر 2021
-
سوشل میڈیا اور چوکس پولیس
بدھ 27 اکتوبر 2021
-
کالم بیتی
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
تعلیم ۔ تجارتی یا فلاحی سرگرمی؟
بدھ 22 ستمبر 2021
-
ایثار، رمضان اور فوجی ہسپتال
منگل 4 مئی 2021
-
شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار
جمعرات 1 اپریل 2021
-
پاکستان ڈے پریڈ اور پنجاب پولیس
جمعرات 25 مارچ 2021
-
بچت کہانی
پیر 26 اکتوبر 2020
یاسر فاروق عثمان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.