بچت کہانی

پیر 26 اکتوبر 2020

Yasir Farooq Usman

یاسر فاروق عثمان

وہ راولپنڈی کی ایک مشہور بیکری تھی، میں بچوں کے ساتھ چھٹی کے دن اکثر شاپنگ پر نکل جاتا ہوں اور گھر کی ضرورت کی اشیاء کی خریداری کرتا ہوں۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔ جب ہم بیکری کے ایک مخصوص کونے میں پہنچے تو وہاں پڑے کروسنٹ کی خوبصورت شکل دیکھ کر میرا دل للچا گیا۔ شیلف کے ساتھ لگی قیمت دیکھی تو پتہ چلا کہ ایک کروسینٹ 90 روپے کا جبکہ پیکٹ 270 روپے کا ہے۔

پیکٹ کی صورت میں بچت دیکھ کر میں نے ایک پیکٹ اپنی باسکٹ میں ڈال لیا۔ کاونٹر پر جا کر پیمنٹ کی اور باہر نکلنے لگا۔ ذاتی زندگی میں، میں ایک انتہائی  سست انسان ہوں اور دوسروں پرآنکھیں بند کرکے اعتبار کرنے کی بیوقوفی بھی کرتا ہوں۔ اس دن بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ بیکری کے بل کو چیک کیے بغیر ادائیگی کرکے باہر نکلنے ہی لگا تھا کہ اتفاقاً بل جیب میں رکھت ہوئے میری نظر کروسینٹ کے پیک کی قیمت پر پڑی اور میں چونک اٹھا۔

(جاری ہے)

کروسینٹ کے پیکٹ کی قیمت 270 کی جگہ 360 روپے چارج کی گئی تھی جو کہ آویزاں فہرست کے برعکس تھی۔ جب میں نے کیش کاونٹر پر موجود فرد کی توجہ اس جانب دلائی تو انکا کہنا تھا کہ یہی قیمت ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ کروسینٹ کے شیلف پر پیکٹ کی قیمت کم درج تھی تو انکا کہنا تھا کہ شاید وہاں غلطی سے ایسا لکھا گیا ہے۔ میں نے انہیں اس غلطی کی اصلاح کی درخواست کرتے ہوئے اپنی رقم کی واپسی کا تقاضا کیا اور رقم لے کر کف افسوس ملتے ہوئے بیکری سے باہر آ گیا۔

اگر بات یہی تک رہتی تو شاید میں اسے اتفاق سمجھتے ہوئے آج یہ کالم نہ لکھ رہا ہوتا لیکن شاید وہ دن ہی اتفاقات کا تھا۔ گھر لوٹتے ہوئے بچوں نے پشاور روڈ پر ہی واقع ایک اور بیکری میں جانے کی ضد کی تو میں وہاں چلا گیا۔ ایک پیکٹ رس کا لیا اور بچوں کی چند چیزیں۔ جب کاونٹر پر ادائیگی کے لیے گیا تو وہاں میری زندگی کا دوسرا دلچسپ اور عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔

حسب عادت کاونٹر والے کی تیارکردہ فہرست کے مطابق بتائی ہوئی رقم کو چیک کیے بغیر ادا کیا اور بچون کے ساتھ باہر نکل آیا۔ وہ دن شاید کچھ عجیب ہی تھا۔ بائیک پر بیٹھنے سے قبل میں نے ایسے ہی بل کو چیک کیا تو وہاں رس کے دو پیکٹ لکھے دیکھ کر میں حیران ہو گیا کیونکہ میں نے تو رس کا ایک ہی پیکٹ لیا تھا۔ فوری طور پر شاپنگ بیگوں کو چیک کیا کہ شاید بچوں نے کوئی اضافی پیکٹ ڈال دیا ہو مگر وہاں تو صرف ایک ہی پیکٹ تھا۔

مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے کہ یا خدا ماجرا کیا ہے۔ میں فی الفور اس بیکری کے کاونٹر پر واپس گیا اور کاونٹر مین کی توجہ اس جانب مبذول کروائی۔ بھلا انسان تھا کہ جس نے فوراً اپنی غلطی تسلیم کی اور مجھے فی الفور اضافی وصول کردہ دو سو بیس روپے لوٹا دیئے۔ میں ایک ہی دن کے اس دوسرے اتفاق پر حیران ہوتا ہوا بیکری سے باہر نکلا، بائیک پر بیٹھا اور بچوں کو لے کر گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔

سڑک کے اگلے موڑ سے پہلے ہی مجھے یاد آیا کہ تھوڑا سا فروٹ بھی لینا تھا لہذا وہیں ایک ٹھیلے والے کے پاس فروٹ دیکھ کر میں نے بائیک سائیڈ پر پارک کی اور بچوں کو لے کر ٹھیلے والے کے پاس آ گیا۔ مختلف پھلوں کی قیمتیں پوچھیں اور چار قسم کے فروٹ آدھا آدھا کلو پیک کرنے کو کہا۔ ٹھیلے والے نے مجھے بیگ پکڑاتے ہوئے چار سو اسی روپے ادا کرنے کو کہا تو میں نے اسے پانچ سو روپے کا نوٹ تھما دیا جس میں سے اس نے بیس روپے واپس ادا کر دیئے۔

وہاں سے ہٹنے ہی لگا تھا کہ اچانک مجھے کچھ خیال آیا اور میں نے دوبارہ حساب کتاب کیا تو معلوم ہوا کہ چار سو اسی روپے کی جگہ تین سو ساٹھ روپے بنتے ہیں۔ میں نے جب ٹھیلے والے کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تو اس نے دوبارہ حساب کتاب لگا کر پھر بھی چار سو اسی روپے ہی بنا دیئے۔ شاید یہ اس کی غلطی نہیں تھی ، وہ حساب ہی میں ٹھیک نہیں تھا۔ بہرحال پاس کھڑے ایک صاحب میری مدد کو آگے بڑھے اور انہوں نے ٹھیلے والے خان صاحب کو ایک ایک چیز کی قیمت جمع کر کے سمجھایا کہ تین سو ساٹھ روپے ہی بنتے ہیں جس پر خان صاحب شرمندہ ہو گئے اور انہوں نے معذرت کے ساتھ اضافی رقم واپس کر دی۔

قارئین کرام، اس سے پہلے کہ میں اس کالم کا خلاصہ پیش کروں، میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میرے سمیت اکثر لوگ بھاو تاو اور حساب کتاب میں شرم محسوس کرتے ہیں جبکہ یہ ہمارے دین کی تعلیمات بھی ہیں کہ جب بھی خریداری کریں تو بھاو تاو لازمی کریں اور ٹھیک ٹھیک حساب کریں، اس کے بعد بیشک آپ دوسروں کےساتھ فراخدلی سے پیش آئیں۔ لیکن شاید میں اپنی سستی یا اعتماد میں کمی کے باعث اکثر ایسا نہیں کرتا اور شاید آپ میں سے بہت سے لوگ ایسا نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہمیں بعد میں نقصان معلوم ہونے پر کف افسوس ملنا پڑتا ہے لیکن تب تک چڑیاں کھیت چگ کر اڑ چکی ہوتی ہیں۔

لہذا میرے دوستو، خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپکی زندگی میں ایسے اتفاقات کثرت سے ہوں تو انہیں نظر انداز نہ کریں بلکہ احسن انداز میں ایسے اتفاقات کی صورت میں متعلقہ افراد کو توجہ دلائیں اور بھاو تاو یا حساب کتاب میں شرمندگی محسوس نہ کریں کہ آپ کی ذرا سی سستی حق حلال کی کمائی کے ضیاع اور بعد میں افسوس کا باعث بن سکتی ہے۔ باقی اس بارے میں قارئین فیصلہ کریں کہ وہ دن میرے لیے اتفاقات کا ہی تھا یا بات کچھ اور تھی!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :