
مزید صوبوں کے قیام میں قباحت کیا ہے؟
جمعہ 31 اکتوبر 2014

ذبیح اللہ بلگن
(جاری ہے)
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ مصر کی آبادی محض سات کروڑ چون لاکھ اٹھانوے ہزار ہے اورآبادی کے لحاز سے مصر دنیا کا پندھرواں اور افریقہ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔
اب ہم آتے ہیں پاکستان کی جانب ۔چاروں صوبوں کے 114 اضلاع، آزاد کشمیر کے 7 اور گلگت و بلتستان کے 7 اضلاع ملا کر پاکستان میں کل 128 اضلاع ہیں۔ اس کے علاوہ قبائلی علاقوں کی سات ایجنسیاں بھی ہیں جن کی الگ حیثیت ہے۔1998ء کی مردم شماری کے مطابق صوبہ پنجاب کی آبادی سات کروڑ چھتیس لاکھ کے قریب ہے جبکہ آزاد زرائع 2014ء میں پنجاب کی آبادی نو کروڑ سے زائد قرار دیتے ہیں ۔اگر ہم پنجاب کا موازنہ برادر اسلامی ملک ترکی سے کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ترکی کی آبادی سات کروڑ اڑتالیس لاکھ ہے اورترکی81 صوبوں میں منقسم ہے۔جبکہ پنجاب کی آبادی نو کروڑ ہے اور یہ ایک صوبہ ہے ۔اسی طرح صوبہ پنجاب کا موازنہ دنیا کے 206ممالک سے بھی کیا جاسکتا ہے جن کی آبادی پنجاب سے کم یا برابر ہے ۔یہ اپنی نوعیت کی چند مثالیں ہیں جہاں نو کروڑ عوام کیلئے ایک آئی جی پولیس ،ایک وزارت تعلیم ،ایک ہوم آفس،ایک وزرات زراعت،ایک وزارت خزانہ قائم ہے ۔قیام پاکستان کے وقت پنجاب کی آبادی دو کروڑ تھی اور اس آبادی کے کنٹرول کیلئے ایک آئی جی پولیس تھا جبکہ آج آبادی نو کروڑ ہے اور آج بھی ایک ہی آئی جی پولیس ہے ۔صادق آباد کے رہائشی کو اگر وزارت تعلیم سے کچھ کام ہے تو اسے بارہ گھنٹے کا طویل سفر طے کر کے لاہور آنا پڑتا ہے ۔اسی طرح ڈی جی خان اور اٹک تک کے شہریوں کو اپنے صوبائی حقوق کی دستیابی کیلئے لاہور کاسفر طے کرنا پڑتا ہے جس کیلئے ناقابل برداشت زاد راہ بھی درکار ہوتا ہے ۔اب اگر پنجاب کے کچھ لوگ پنجاب کو مزید صوبوں میں منقسم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے ؟۔
اسی طرح ہزارہ ڈویژن کے مکین اگر الگ صوبہ کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ بھی ایسی اچنبھے کی بات نہیں ۔صوبہ سرحد کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے ۔صوبہ سرحد میں چوبیس اضلاع ہیں ۔صرف ہزارہ ڈویژن کی آبادی پچاس لاکھ سے متجاوز ہے ۔دنیا میں 108ممالک یا ریاستیں ایسی ہیں جن کی آبادی پچاس لاکھ سے کم ہے ۔ترکمانستان کی آبادی انچاس لاکھ پینسٹھ ہزار ہے ،ناروے سینتالیس لاکھ ،سنگا پور چونتالیس لاکھ،جارجیا تینتالیس لاکھ ،متحدہ عرب امارات تینتالیس لاکھ،نیوزی لینڈ بیالیس لاکھ،لبنان چالیس لاکھ،کویت اٹھائیس لاکھ،عمان پچیس لاکھ،مقدونیہ بیس لاکھ،قطر آٹھ لاکھ اور مالٹا کی آبادی چار لاکھ ہے ۔اگر پچاس لاکھ سے کم آبادی کے حامل خطے ملک اور ریاستیں اس دنیا میں موجود ہیں تو پھر ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ کا درجہ دینے میں کیا قباحت ہے ؟۔میں اپنی تمام تر شعوری صلاحتیں خرچ کرنے کے باوجود یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ نئے صوبوں کے قیام سے وفاق کے استحکام پر کہاں ضرب پڑتی ہے ؟۔ایم کیو ایم بھی نئے انتظامی یونٹ یا نئے صوبوں کے قیام کیلئے متحرک دکھائی دیتی ہے ۔اگر پنجاب ، سندھ، خیبر پختونخواہ میں نئے صوبے بنا دیے جائیں تو یقینی طور عام افراد کو اس سے سہولت میسر آئے گی ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ذبیح اللہ بلگن کے کالمز
-
پاک بھارت کشیدگی
بدھ 28 ستمبر 2016
-
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اتوار 12 جون 2016
-
مطیع الرحمان نظامی،،سلام تم پر
جمعہ 13 مئی 2016
-
مودی کی “اچانک “پاکستان آمد
اتوار 27 دسمبر 2015
-
بھارت اور امریکہ نے مشرقی پاکستان میں کیا کھیل کھیلا ؟
ہفتہ 5 دسمبر 2015
-
نریندر مودی کا دورہ کشمیر
پیر 9 نومبر 2015
-
مظفر گڑھ کی سونیا اور لاہور کا عابد رشید
جمعہ 16 اکتوبر 2015
-
میں اور میرا بکرا
جمعرات 24 ستمبر 2015
ذبیح اللہ بلگن کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.