میرا جسم میری مرضی

بدھ 26 فروری 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

میری ملاقات اس سے ایک ہوٹل کی پارکنگ میں رات کے وقت ہوئی، وہ ایک تباہ حال مانگنے والی لگتی تھی، جو روشنی سے بچ کر کھڑی تھی۔ اس کے چہرے سے بلا کی یاسیت و افسردگی عیاں تھی۔ میرے ارادے بھانپ کر وہ کترا کر نکل جانا چاہتی تھی ، اس نے بات کرنے سے یکسر انکار کر دیا تھا۔ مگر مجھے لگ رہا تھا کہ معاملہ ضرور کچھ انوکھا ہے لہذا میں مسلسل اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا رہا، آخر کار وہ بات کرنے پر آمادہ ہو گئی۔

میں نے سوال کیا کہ کچھ اپنے متعلق بتاؤ ، بہت دیر تک خاموش رہنے کے بعد وہ اس قابل ہوئی کہ اپنے ما ضی کے اوراق کو کھنگال کر کچھ بات کر سکے، اس دوران اس پر کئی بار کپکپی سی طاری ہوگئی ۔ ایک لمبی اور گہری سانس لے کر خاموشی کے وہ یوں گویا ہوئی کہ:
وہ ایک کھاتے پیتے پڑھے لکھے گھرانے کی بہت ہی لاڈلی بیٹی تھی۔

(جاری ہے)

بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہونے کہ وجہ سے سب کی بہت ہی لاڈلی تھی اور اس ہی وجہ سے اپنی ہر جائز ناجائز خواہش پوری کرا لیتی تھی۔

لاڈ پیار کی زیادتی سے خوداعتمادی بھی اپنے عروج پر تھی، اوپر سے سونے پر سہاگہ کہ والدین بالکل روک ٹوک نہیں کرتے تھے، لہذا طبعیت میں آزاد خیالی بھی موجود تھی۔ اسکول سے کالج میں آئی تو ماحول اور سازگار ملا، ملاقات شہر کے رئیس زادوں اور بگڑے نوابوں سے ہو گئی، ساتھ ساتھ نام نہاد لبرل ازم، سوشلزم ، اور انسانی حقوق کے علمبرداروں سے بھی تعارف ہو گیا، اٹھنا بیٹھنا ہو گیا۔

آہستہ آہستہ وہ ایک بالکل نئے باحول میں رچنے بسنے لگی، والدین کو پتہ ہی نہ چلا کہ ان کی لاڈلی بیٹی کس ڈگر پر چل پڑی ہے اور کیا گل کھلا رہی ہے۔ اب وہ عموما ٹی وی اور اخبارات میں ان نام نہاد تنظیموں کی کارکن بطور احتجاج کرتی نظر آنے لگی۔ جن کا خاص نعرہ تھا کہ میرا جسم میری مرضی، اور ہم چھین کے لیں گے آزادی، اور معاشرے میں مردوں کے برابر حقوق کا تقا ضہ، لال لال کا بھی خاص نعرہ لگایا جاتا تھا، وقت یونہی گزرتا رہا وہ ایک سرگرم کارکن بن گئی، کہ گھر والوں پر اچانک قیامت ٹوٹ پڑی، وہ بغیر نکاح کے ماں بننے والی تھی، جیسے تیسے اس مصیبت سے نجات حاصل کی گئی اور منت سماجت کی گئی کہ اب اس راہ کو ترک کر کے گھر کی روائیتی روش پر زندگی گزارے ۔

مگر اس بات پر میں نے شدید ناگواری کا اظہار کیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ اگر مجھ پر زیادہ دباؤ ڈالا گیا تو نہ صرف میں گھر سے بھاگ جاؤں گی بلکہ ان سارے نام نہاد حقوق نسواں کے اداروں کو بھی پیچھے لگا دونگی جو آپ سب کہ زندگی اجیرن کر دیں گے۔ میں جیسے جینا چاہتی ہوں مجھے ویسے ہی جینے دیا جائے۔ لہذا سب ڈر کر خاموش ہو گئے کہ کہیں واقعی نہ بھاگ جائے، تب تو پھر پورا خاندان بڑی مشکل اور بدنامی کا شکار ہوجائے گا۔

مگر کچھ ہی عرصہ بعد پھر وہی قصہ پرانا۔ ظاہر ہے جہاں مادر پدر آزادی اور بنیادی معاشرتی اصولوں سے بغاوت کی جا رہی ہو تو نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکل سکتا ہے۔ اب کی بار ابا تو صدمے سے جانبر نہ ہوسکے اور انتقال کر گئے، اور اماں بھی جیتے جی درگور ہو گئیں۔ پورا خاندان ایک عجیب ذہنی و نفسیاتی کشمش و پریشانی کا شکار تھا، سب سے قیمتی شہ پرکھوں کی عزت داؤ پر لگی تھی، آہستہ آہستہ سب نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اسے اسکے حال پر چھوڑ دیا، اور میں خرافاتی زندگی کی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔

اماں نے آخری حربے کے طور پر منانا چاہا کہ شادی کرلے تاکہ زندگی کسی ڈھب پر آجائے، مگر نتیجہ برعکس نکلا اور وہ گھر چھوڑ کر ہی چلی گئی۔ بہن بھائیوں نے واپس لانے کی بڑی کوشش کی مگر لاحاصل، نتیجہ ماں نے بھی دار فانی سے کوچ کرنا ہی مناسب سمجھا اور منوں مٹی تلے جا سوئیں۔ سستی اور گری ہوئی شہرت کا نشہ کسی بات کو سمجھنے ہی نہیں دے رہا تھا، بس ایک پردہ تھا جو آنکھوں پر پڑا تھا اور عقل تھی جو اندھی ہو چکی تھی۔

سماج سے بغاوت کا کیڑا سر چڑھ کر کاٹ رہا تھا، اور بغاوت برائے بغاوت کا اصول سماجی و دینی حلقوں سے جنگ پر اکسا رہا تھا، اندھی تقلید نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی تھی اور بے حیائی تو جیسے رگوں میں دوڑتی پھرتی تھی۔ بے حیائی سے بھرپور تصاویر کی اخلاق باختہ جملوں کے ساتھ تشہیر کی جاتی تھی۔ نشہ اور دیگر خرافات سے بھرپور زندگی سرعت کے ساتھ گزرتی جا رہی تھی۔


اب عمر کا سورج ڈھلنے لگا تھا اور حسن و جوانی بھی ماند پڑنے لگے تھے، تو جو جوانی کا رس اور چس لے رہے تھے آہستہ آہستہ چھٹنے لگے، تکلف کے تمام پردے اٹھنے لگے مراسم بگڑنے لگے اور نوبت گالم گلوچ اور مار کٹائی تک آپہنچی، اب کوئی تنظیم مددگار نہ تھی زندگی اپنا بہت ہی مکروہ چہرہ سامنے لا رہی تھی۔ بڑی بے بسی تھی ، کبھی گمان بھی نہ گزرا تھا کہ میں اتنی بے و قعت ہو جاؤں گی۔

لوگ ایسے آنکھیں پھیر لیں گے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اب عیاشیاں ، نخرے، اسٹیٹس، خرچے سب خواب و خیال ہو کر رہ گئے تھے۔ اب تو بھوک، بیماری، بے توجہی ، بے رخی ، تنہائی اور بد کلامی نے ان کی جگہ لے لی تھی، زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی تھی۔ ایسے میں ایک پرانی وقت گزیدہ ساتھی نے پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لئے جسم فروشی کے دھندے سے روشناس کرادیا، اور میں مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق اس گھناؤنی راہ پر چل پڑی۔

یوں وقت کچھ اور آگے بڑھ گیا۔ اور زندگی گندگی کے کچھ اور پرتوں میں لپٹتی رہی۔
ہر گزرتا دن بد سے بد تر ہوتا جا رہا تھا اور صرف پیٹ کی آگ بجھانے کیلئیے اسے اپنا جسم باربار بیچنا پڑ رہا تھا۔ زندگی گویا بے بسی و حقارت کی تعبیر بن کر رہ گئی تھی ۔ اب اسے بڑی شدت سے یہ احساس ہو رہا تھا کہ یہ جملہ ہی غلط تھا کہ میرا جسم میری مرضی، اب تو یہ محض ایک تیسرے درجے کا بکاؤ مال تھا، وہ بھی گاہک کی مرضی پر۔

اور باسی مال کون خریدتا ہے یوں نوبت بھیک مانگنے تک آ پہنچی، اور اب یہ عالم ہے کہ خود سے نظر ملاتے بھی شرم آتی ہے۔ کاش کوئی سمجھائے ان اندھی تقلید کرنے والوں کو کہ انجام ناقابل یقین حد تک بھیانک اور تکلیف دہ ہے۔
اولاد انسان کو عطاء کی جانے والی سب سے قیمتی اور خوبصورے نعمت ہے۔ لہذا ہر انسان چاہے وہ جس بھی طبقے سے ہو اس کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد بہترین اخلاق و کردار کی حامل ہو، اور سب سے اہم بات یہ کہ اولاد بھی وہی سیکھتی ہے جو اپنے والدین کو کرتے ہوئے دیکھتی ہے۔

جو زندگی بھر ان کی فطرت ثانیہ بن کر ان کے ساتھ رہتی ہے۔ لہذا والدین کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ خود کو ایک مثال کے طور پر اولاد کے سامنے رکھیں تاکہ آئندہ زندگی میں انہیں دشواریوں کا سامنہ نہ کرنا پڑے۔ اہل و عیال پر شفقت و مہربانی ایک فطری عمل بھی ہے اور حکم ربانی بھی، مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم کردار سازی اور شخصیت سازی سے خود کو روک لیں ۔

کیونکہ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں اب بھی مغربی معاشرتی و تہذیبی اقدار و افکار سے بڑا اختلاف پایا جاتا ہے، اور جو لوگ اندھی تقلید کر رہے ہوتے ہیں وہ آخر کار تنہا رہ جاتے ہیں۔ اپنے بچوں کو اس راہ پرخار سے محفوظ رکھنے کیلئے اہم ترین کردار والدین کا ہے، جنہیں اپنے بچوں پر گہری نگا ہ رکھنی ہوگی ، بیشک اپنے بچوں کو اعتماد و آزادی دیں مگر اخلاقی حدود و قیود میں رہتے ہوئے، ماڈرن ہونا ایک الگ بات ہے اور بے حیا و بے باک ہونا ایک الگ بات۔

والدین کیلئے یہ باریک نقطہ سمجھنا بہت ضروری ہے، بلا وجہ کی مسابقت کی وجہ سے اپنی اولاد کی دنیا و آخرت برباد نہ ہونے دیں۔ اولاد کے آرام و آسائش کا احتمام کرنا والدین کی ذمہ داری ہے مگر ساتھ ساتھ اولاد کے اعمال و افعال ، رہن سہن اور طور طریقوں پر بہت ہی گہری نگاہ رکھنی ہوگی، وہ کہتے ہیں نہ کہ کھلاؤ سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی نظر سے، اور پھر مسلمان ہونے کے ناطے اولاد ہماری ذمہ داری ہے اور آخرت میں ہم ان کی تربیت کی ذمہ داری کیلئے جوابدہ ہونگے۔

والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کریں اور اسے معاشرے کیلئے مفید اور نفع کا سبب بنائیں، کہتے ہیں کہ نیک اولاد والدین کیلئے صدقہ ء جاریہ ہوتی ہے، اسی طرح اگر وہ معاشرے کیلئے ضرر کا سبب بنیں گے تو نقصاں والدین کا بھی ہوگا، کوئی بھی انسان اپنی اولاد کو جو بہترین تحفہ دے سکتا ہے وہ اس کی بہترین اخلاقی تربیت ہے۔ جو ساری زندگی نہ صرف اولاد کے کام آئے گی، معاشرے کو مفید و کارآمد شہری ملیں گے جس کا اثر اجتماعی معاشرتی زندگی پر پڑے گا اور والدین کو اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی مسلسل توصیف و پزیرائی ملتی رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :