گدڑی کا لال

پیر 18 مئی 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

ایس ایم راشد چیئرمین صاحب کی انتظار گاہ میں خوشی اور گھبراہٹ کے ملے جلے جزبات کے ساتھ بیٹھا تھا، وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ اس کی پہلی ہی کوشش پر اسے چیئرمین صاحب نے ملنے کا وقت دے دیا تھا۔ وہ ایک معروف صنعت کار تھا اور اپنی فیکٹری کے بجلی کے معاملات سے خاصہ پریشان تھا، کسی نے اسے ان سے ملنے کی صلاح دی اور اس نے عرضی داغ دی جو غیرمتوقع طور پر فوراً ہی منظور بھی ہو گئی اور آج وہ ملاقات کا منتظر تھا، وہ یہ بخوبی جانتا تھا کہ ان سے ملنا کوئی آسان کام نہ تھا، وہ ایک بڑی پاور سپلائی کمپنی کے نہایت مصروف روح رواں تھے ، مگر انہوں نے کمال مہربانی کی تھی اور اسے فوراً ہی ملاقات کیلئے بلا بھیجا تھا۔

وہ خیالوں ہی خیالوں میں پلان کر رہا تھا کہ کس طرح وہ بہترین طریقے پر اپنے معاملے کو پیش کر سکے گا۔

(جاری ہے)

کیا کیا خاص پوائنٹس ہیں جن کو اجاگر کرنا ہے، کہ اچانک اردلی کی آواز اسے خیالوں سے واپس کھینچ لا ئی۔ اسے اندر طلب کیا جا رہا تھا۔ اس نے جلدی سے اپنے کپڑے ٹھیک کیئے، بالوں کو درست کیا اور ٹائی کی گرہ درست کرتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا۔ جیسے ہی وہ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا، اس نے محسوس کیا کہ وہ کسی نہایت ہی باذوق اور نفیس شوق رکھنے والے انسان سے ملنے والا ہے ، یہ ایک وسیع و عریض کمرہ تھا جس میں نہایت قیمتی فرنیچر رکھا ہوا تھا دیواروں پر آویزاں تصاویر مکین کے صاحب ذوق ہونے کی گواہی دے رہی تھی۔

غرض ہر شہ اپنی جگہ گویا نہایت مناسب اور دلکش تھی۔ بڑی سی میز کی دوسری جانب ایک نہایت پروقار اور جازب نظر شخص ہلکے رنگ کے سوٹ میں ملبوس بیٹھے اسی کی جانب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے نہایت تپاک سے اس کا استقبال کیا، ہاتھ ملایا اور اسے بیٹھنے کو کہا۔ جب وہ اطمینان سے بیٹھ گیا تو انہوں نے اس سے چائے پانی کیلئے پوچھا ۔ ساتھ ساتھ وہ اسے بہت غور سے دیکھ رہے تھے، صاف ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اسے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آخر انہوں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ، راشد صاحب کیا آپ کمپری ہینسو ہائی اسکول میں پڑھتے تھے۔ ایس ایم راشد اس اچانک سوال پر سٹپٹا سا گیا، اور کچھ حیرانی اور کچھ تجسس کے ساتھ کہا کہ جی ہاں میں وہیں پڑھتا تھا۔ مگر آپ یہ سب کچھ کیسے جانتے ہیں؟ تب انہوں نے بتایا کہ وہ بھی وہیں پڑھتے تھے۔ اب اس پر حیرانیوں کے جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑے، ارے سر آپ وہاں پڑھتے تھے، تو انہوں نے کہا کہ جی ہاں بالکل وہیں پڑھتا تھا بلکہ آپ کی کلاس میں ہی پڑھتا تھا، وہ جیسے غش کھا جانے کی کیفیت میں آگیا، ایک شہر میں اتنی بڑی پوزیشن والا ساتھی طالب علم اور ہمیں پتہ ہی نہیں۔

خیر انہوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ شاید آپ کو یاد ہو آپ کی کلاس میں ایک لڑکا پڑھتا تھا جسے آپ انڈے والا کڑکا کہا کرتے تھے۔ ایس ایم راش کی جیسے جان ہی نکل گئی اور اس نے ہکلاتے ہوئے بمشکل کہا ۔ ۔ ۔ ۔ آپ ساجد ہیں ؟ انہوں نے اس کی کیفیت کو بھانپتے ہوئے ایک لمبی سی جی کہا ، اور وہ جیسے منوں مٹی تلے دب سا گیا، اس کے سارے جزبات پر جیسے اوس پڑ گئی۔

وہ کچھ ہچکچاتے ہوئے بولا ساجد صاحب آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ یہ کہتے کہتے جیسے ایک فلم اس کے ذہن میں الٹی چلنے لگی۔
وہ پرائمری کلاسز میں تھے جب ایک بچہ لیٹ ایڈمشن ہوکر آیا، وہ نہایت سیدھا سادھا، کم گو اور کچھ سہما سہما سا تھا، وہ کلاس میں بچوں سے زیادہ گھلتا ملتا نہیں تھا۔ مگر پڑھنے میں اچھا تھا اس کا رنگ آہستہ آہستہ ٹیچرز پر چڑھنے لگا تھا، اس کا خط نہایت عمدہ تھا، وہ اسباق کو سمجھنے اور ہوم ورک مکمل کرنے میں بھی نہیں چوکتا تھا ۔

غرض وہ ایک ایسا طالب علم تھا جو کسی بھی استاد کو پسند ہو سکتا تھا۔ چند مہینوں میں وہ نہایت خاموشی سے جماعت میں اپنی جگہ بنا چکا تھا ، اساتذہ اس کو اہمیت دینے لگے تھے جس کی وجہ سے وہ چند لڑکے جو پڑھنے سے زیادہ کھیل کود اور دھینگا مشتی میں مصروف رہتے تھے اندر ہی اندر اس سے جلنے لگے تھے۔ اور اس کو زچ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔

کچھ وقت گزرا اب سردیاں شروع ہوگئی تھیں یہ وہ زمانہ تھا جب سردیوں کی راتوں میں خوانچہ فروش اور ریڑھی بان گلی گلی چکر لگا کر سردیوں کی سوغاتیں بیچا کرتے تھے، جیسے گرم انڈے، مونگ پھلیاں، لچھے وغیرہ وغیرہ، ایسی ہی ایک سردی کی شام ایس ایم راشد نے گلی میں کسی بچے کی آواز سنی جو گرم انڈوں کی آواز لگا رہا تھا۔ وہ جھٹ سے گلی والے دروازے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ لڑکا زرا آگے جا چکا تھا۔

اس نے آواز دی کہ او انڈے والے زرا سنو! انڈے والا لڑکا رک گیا اور اس کے پاس آگیا، جیسے ہی دونوں کی آنکھیں چار ہوئی دونوں کو جیسے کرنٹ سا لگا، ارے ساجد تو!! جی ہاں میں بتائیں کیا لیں گے۔ راشد نے کہا نہیں اب کچھ نہیں لینا، تو ساجد نے نہایت لجاجت کے ساتھ کہا کہ یہ بات وہ کلاس میں باقی بچوں کو نہ بتائے، اور اس نے وعدہ بھی کر لیا مگر اس کی آنکھیں عجیب طرح سے چمک رہی تھیں اور وہ دل ہی دل میں کل صبح کے منصوبے بنا رہا تھا۔

اگلی صبح جب سارے بچے کلاس میں آگئے اور اپنی اپنی بینچ پر بیٹھ گئے تو ساجد نے محسوس کیا کہ راشد کچھ زیادہ ہی خوشی سے بیقرار ہے وہ ڈرا سہما سا اپنی بینچ پر سر جھکائے بیٹھا تھا او ر آنے والے کسی بھی برے لمحے کی تیاری کر رہا تھا کیونکہ وہ راشد کی فطرت سے بخوبی آگاہ تھا، وہ جانتا تھا کہ بھلے ہی اس نے رات وعدہ کرلیا ہو مگر وہ اس پر قائم رہے گا نہیں اور ہوا بھی ایسا ہی کہ یکایک راشد نے ساجد کو مخاطب کرکے آوا ز لگائی او انڈے والے، ایک انڈا دینا، اور ساجد شرمندگی اور ہتک کے احساس تلے دب سا گیا، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کلا س کے بہت سے بچے اس کو دیکھ دیکھ کر او انڈے والے کی آوازیں لگا رہے تھے۔

اسے اپنا سر گھومتا سا محسوس ہو رہا تھا، کوئی جائے فرار نہ تھی ، کہ اچانک ٹیچر کلاس میں داخل ہوئی تو اس کی گلو خلاصی ہوئی۔ مگر اب یہ روز کا معمول تھا کسی نہ کسی کونے سے انڈے والے کی آواز اس کا پیچھا کرتی رہتی تھیں، پہلے وہ دوست بنانے سے ڈرتا تھا اب لوگ اسے دوست بنانے سے کتراتے تھے۔
 چیئرمین صاحب کی گھمبیر آواز ایس ایم راشد کو خیالوں سے واپس لے آئی، وہ نہایت سہل لہجے میں کہہ رہے تھے کہ آپ کے نام کی میری زندگی میں بڑی اہمیت ہے، اور جب آپکی درخواست میرے پاس آئی تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ چانس لیا جائے ہوسکتا ہے آپ وہی ہوں، اور دیکھیں آج ہم آمنے سامنے بیٹھے ہیں، کچھ دیر توقف کے بعد وہ یوں گویا ہوئے کہ میں آپکو اپنے متعلق بتاتا ہوں، میرا تعلق ایک نہایت ہی غریب گھرانے سے ہے، میرا باپ پیٹرومیکس لیمپ (تیل سے جلنے والی لال ٹین) کی چمنیا بناتا تھا، وہ بہت شدید محنت کیا کرتا تھا، کچھ وقت بچ جاتا تھا تو وہ فوجیوں کی پیٹیا پالش کیا کرتا تھا، اس سے بمشکل ہمارے گھر کا خرچ چلتا تھا ، ایسے میں اس کی شدید خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن جاؤں، لہذا اس نے ایک کام اور شروع کردیا وہ فوجیوں کی کپڑے کی پیٹیوں پر رنگین مٹی سے پالش کرنے لگا۔

اور یہ پیسہ وہ صرف میری تعلیم پر خرچ کرتا تھا۔ ورنہ ہماری تو اوقات ہی نہ تھی کہ اس اسکول کے دروازے تک آسکیں۔ تعلیمی اخراجات کا بوجھ باپ پر کم کرنے کیلئے میں سردیوں کی راتوں میں انڈتے ڈبل روٹی کی پھیری لگایا کرتا تھا، کیونکہ میں اپنے والد سے بے انتہا پیار کرتا تھا، لہذا میں نے خود پر یہ لازم کرلیا تھا کہ ان کے خوابوں کو ضرور سچ کر دکھاؤں گا۔

اور اگر میں کسی قابل ہوں گا تو ہی ان کی کچھ اچھے سے خدمت کر پاؤں گا۔ لہذا آپ لوگوں کی طرف سے آنے والی ہر آواز میرے جیت کے جنون میں اضافہ کرتی چلی گئی اور میں ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ مضبوط ہوتا چلا گیا، انجنیئرنگ کرنے تک اسکالرشپ لینا جسے میرا معمول بن گیا تھا، پھر بیرون ملک اسکالرشپ پر PhD کرنے چلا گیا وہ مکمل کرنے اور نہیں سرو کرنے کے بعد اپنے ملک لوٹ آیا اور آج آپکے سامنے ہوں۔


جناب ایس ایم راشد صاحب اس رات بھی آپ ہی نے مجھے آواز دی تھی اور آج بھی آپ ہی نے پکارا ہے، میں اس رات بھی آپ کی آواز پر لوٹ آیا تھا اور آج بھی آپ کی آواز پر موجود ہوں۔ آپ کا ہر جائز کام میرے اچھے دوست ہونے کے ناطے بغیر کسی حیل و حجت کے ہو جائے گا۔ اور حکم!! اور ایس ایم راشد پر جیسے گھڑوں پانی ڈال دیا گیا ہو، وہ تو بس خاموش ، بیٹھا دل ہی دل میں بڑی ندامت محسوس کر رہا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :