ملین مارچ سے دھرنے اور پھر استعفوں تک کا سفر

بدھ 31 مارچ 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

 اردو کی ابتدائی کتاب میں ایک مضمون تھا کہ ایک تھی کالی بلّی اور ایک تھی بھوری بلّی، دونوں کو ملا ایک ملائی کا لڈّو، کالی بلّی کہتی تھی یہ لڈو میرا ہے اور بھوری بلی کہتی تھی کہ یہ لڈو میرا ہے، اتنے میں ایک کتّا آیا اور لڈو اٹھا کر بھاگ گیا اور بلّیاں منہ دیکھتی رہ گئیں، موجودہ اپوزیشن کا حال بھی ان بلّیوں جیسا ہوکر رہ گیا ہے۔

جس روز سے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے اپوزیشن مسلسل کھمبا نوچ رہی ہے، اور کچھ زیادہ ہی متحرک و ملک دوست نظر آنے لگی ہے، ورنہ ان کی ملک کیلئے خدمات اور ترقی کیلئے کئے گئے کارنامے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اپوزیشن بلا تکان کاوشوں میں مصرروف ہے کہ کسی طرح موجودہ حکومت سے چھٹکارہ پاکر مسند اقتدار پر براجمان ہوا جا سکے۔

(جاری ہے)

اس مقصد کیلئے وہ سب جو پرانے حریف ہیں آج حلیف بن بیٹھے ہیں، جانی دشمن ، جان من بن بیٹھے ہیں۔

اور باہم ایسے شیر و شکر ہوئے ہیں کہ لگتا ہے برسوں کی یاری نہیں بلکہ رشتہ داری ہے۔ ظاہر ہے کہ رشتہ داریاں تو ہیں کہ گذشتہ تین دھائیوں تک صرف ان دو خاندانوں یا پارٹیوں نے حکومتی باریاں لگائی ہیں، او ر اس وجہ سے ان کی حکومت کرنے کی عادت سی بن گئی ہے، ایسے میں کوئی تیسرا حکومت میں آجائے یہ ان سے نہ ہضم ہو رہا ہے اور نہ برداشت ۔ حصول اقتدار کی حوس میں اب وہ جو حیلے ہتھکنڈے ہو سکتے ہیں اپنانے کو تیار ہیں۔

بلکہ اپنا رہے ہیں، کبھی مل کر حکومت مخالف بیانئے دے رہے ہوتے ہیں، کبھی کوئی تحریک چلا رہے ہوتے ہیں کبھی دھرنے اور مارچ کر رہے ہوتے ہیں، اور ہر معرکہ کے بعد آپس میں نوچ کھسوٹ رہے ہوتے ہیں، ظاہر ہے یہ سب کچھ کسی پتلی تماشے سے زیادہ ہے بھی نہیں ، کہ اخلاص وہ طاقت ہے جسے کسی اور سہارے کی ضرورت رہ نہیں جاتی اور ان سب میں اخلاص کا فقدان ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کے درمیان اخلاص ناپید ہے، لہذا یہ بظاہر ایک راہ پر ہیں مگر دراصل سب کی راہیں جدا جدا ہیں، اسلئے یہ سب اجتماع کے بجائے ہجوم کے سوا کچھ بھی نہیں۔


جس دن سے سینٹ الیکشن کی ہوا چلی اپوزیشن کی شورشوں اور کاوشوں نے بھی زور پکڑ لیا، جیسے ہی سینٹ الیکشن ختم ہوئے بلی تھیلے سے سر باہر نکالنے لگی اور پوری کی پوری بلّی سینٹ کی چیئرمین شپ کے الیکشن پر باہر آگئی، لوگ کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آگئے، حکومتی نمائندے کا چیئرمین شپ جیت جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے، ورنہ اپوزیشن کی تو اکثریت تھی با آسانی یہ میدان مارا جا سکتا تھا، مگر مفادات کی جنگ میں سب کا فار مولا یا شیخ اپنی اپنی دیکھ والا ہوتا ہے، تو سینٹ کی چیئرمین شب ہاتھ سے گئی بالکل اوپر بیان کی گئی بلّیوں کی طرح، اب شروع ہوا معاملہ کہ جی لانگ مارچ کیا جائے گا، ساری اپوزیشن جماعتیں شامل ہونگی ، دھرنا ہوگا اور حکومت کو وہ ٹف ٹائم دیں گے کہ بس حکومت گھر جا کر ہی رہے گی۔

مگر یہ کیا ہوا اس کے باوجود کہ سب مسلسل رابطے میں ہیں اجلاس پر اجلاس ہو رہے ہیں لیکن دھرنے کے بعد استعفے دیئے جائیں گے پر ایک جماعت نے ماننے سے انکار کردیا، ایک مولانا جو بیچارے گذشتہ کئی دھائیوں سے کسی طفیلی Paracite کی طرح ہر حکومت سے چمٹے رہتے ہیں ناراض ہوگئے اور عین پریس کانفرنس سے واپس چلے گئے ان کا جانا بہت ہی عجیب اور بچکانہ سا تھا مگر ٹھیک ہے اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، لوگ آوازیں دیتے رہ گئے اور حضرت بنا بات کئے چلے گئے بالکل اس شعر کی طرح کہ لو چل دئے وہ ہم کو تسلّی دیئے بغیر۔

اس کے بعد آپس میں الزام تراشیوں کا لا متناہی سلسلہ چل نکلا جو اب بھی اپنے عروج پر ہے، اب عفریت شکار کو نہیں بلکہ اندر ہی اندر خود کو ہی کھا رہا ہے، خوب کھینچا تانی ہوئی، بیچارے مولانا نے دیکھا کہ لو اب تو کھٹّی چھاچھ بھی ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے ، تو لوٹ کر پھر سے اپوزیشن میں آجڑے، مگر اس دوران ایک اور زبردست ہاتھ ہوگیا اور وہ یہ کہ ان دو جماعتوں میں یہ رسّہ کشی چل رہی تھی کہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر ہمارا ہوگا، کہ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی بھلی مگر جہاں تعلقات میں اخلاص نہ ہو یا تعلقات کی بنیاد مفادات پر ہو وہاں کے نتائج کی امید ہمیشہ ایسے ہی کی جا سکتی ہے کہ ایک پارٹی نے بلا باہمی مشاورت کے سینٹ میں نہ صرف اپنا اپوزیشن لیڈر نامزد کیا بلکہ اسے کامیاب بھی کرالیا، اب باقی سب کے مرچیں لگنے والی تھیں سو لگ گئیں۔

خوب لے دے ہوئی اور وہ مثال کہ دنیا گول ہے، صادق آتی ہوئی نظر آئی، کہ یہ کاروان جہاں سے چلا تھا،
 یعنی ایک دوسرے کی کردار کشی، ایک دوسرے پر بہتان طرازی، ایک دوسرے کے خاندانوں اور بڑوں کی حیثیت عرفی پر آکر واپس ٹھہر گیا، ا ب وہی جو کل تک بہن بھائی تھے، آج ایک دوسرے کے والدین کی ٹوپیاں اچھال رہے ہیں۔ اس سے پہلے یہی لوگ تھے جو ایک دوسرے کے والدین کو ان القاب سے نواز رہے تھے کہ کوئی بھی غیرتمند کسی صورت تعلقات دوبارہ استوار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، مگر یہ سیاسی لوگ کرسی و اقتدار کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں، یہ کہتے ہیں کہ، (گندا ہے پر دھندا ہے یہ، اور ماں کہتی ہے کہ دھندا کوئی برا نہیں ہوتا)، سو آپس میں خوب میل ملاپ ہوئے، اجلاس ہوئے، پریس کانفرنس ہوئیں، سرعام ایک دوسرے کے حق میں زندہ باد کے نعرے لگائے گئے، لیکن ہوا نے ایک دم رخ بدلا اور یہ واپس وہیں آکھڑے ہوئے جہاں سے چلے تھے، تو ظاہر یہ ہوا کہ ان کا اصل کردار و شخصیت یہی ہے جہاں یہ آج کھڑے ہیں، وہ ایک وقتی ضرورت تھی جس کے تحت یہ آپس میں شیر وشکر ہوگئے تھے جسے یہ خود نظریہء ضرورت کا نام بھی دیتے ہیں۔


ان تمام عوامل نے لوگوں پر ان سب کو بے نقاب کر دیا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کے اصل چہروں اور کردار سے ہر پاکستانی پوری طرح واقف ہو گیا ہے، مگر جانے ان لوگوں کے پاس کونسی گیدڑ سنگھی ہے کہ ہربار عوام کو ماموں بنا دیتے ہیں۔ یا پھر عوام میں شعور کی کمی ہے، یا ہمارے ہاں موروثی سیاست اس کا موجب ہوسکتی ہے، کہ ہزار برائیوں کے باجود ووٹ برادری سسٹم کے تحت ہی دیا جاتا ہے۔

تو نتیجہ بھی وہی آئے گا جو سب کے سامنے ہے۔
 اس وقت ہم پاکستانی عوام دنیا کے چند پسے ہوئے، محروم کئے ہوئے، لوٹے گئے عوام میں سے ایک ہیں، نہ ہم اپنی روش بدلنے کو تیار ہیں نہ حالات بدلیں گے۔ حبیب جالب نے کیا خوب کہا تھا کہ :
ہر شخص سر پہ کفن باندھ کے نکلے
حق کے لئے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :