کورونا ڈرامہ ہے استاد‎

منگل 30 مارچ 2021

Zakia Nayyar

ذکیہ نیر

استاد صغیر کے ہوٹل پر ویسا ہی رش لگا تھا جیسے کرونا کے زمانے سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ڈائن ان کا تو چکر ہی نہیں کیونکہ ہوٹل کھلی فضا میں کئی برسوں سے چائے کے شوقینوں کے لیے پلاسٹک کی میز کرسیوں سے سجا رہتا تھا مارکیٹ کے بیچوں بیچ ہر آنے جانے والا یہاں بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لے کر اپنی تھکن اتارنا فرض سمجھتا تھا اب جبکہ اس علاقے کو وبا کے حوالے سے انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا مگر اس بات کا یہاں آنے والوں کو ناں خوف تھا نہ کوئی فکر ۔

۔
صفدر دوست یاروں کے ساتھ میچ کھیلنے کے بعد سیدھا ہوٹل چلا آیا بیس سیکنڈ تک تو دور ہاتھوں پر پانی ڈالنا بھی کوفت جان کر سیدھا پانچ کپ چائے کا آرڈر دیا آرڈر سن کر لڑکے نے جیب سے اپنا ماسک نکالا اور الٹا سیدھا کانوں پر لٹکاتے چائے بننے کا انتظار کرنے لگا۔

(جاری ہے)

۔
چائے تیار ہوئی تو سب نے چائے پی اتنے میں کرونا ایس او پیز چیک کرنے والے پولیس کے جوان بھی چائے کی طلب میں وہیں بیٹھ گئے مگر مجال ہے کہ کوئی بھی رسمی طور پر ہی سہی ماسک پہن لیتا اتنے میں صفدر نے پولیس والے سے پوچھا سر جی کرونا شرونا دا کی حال ہے پولیس والا کچھ بولتا استاد صغیر بول اٹھا او جی سارا ڈرامہ ہے کرونا جے ہوندا سچ تے فر کسی غریب نوں کیوں نہیں ہوندا ؟ با شعور  سمجھدار سبھی نے استاد صغیر کی بات کی تائید کی اور پھر سے وہی بد احتیاطی ۔

۔۔کاش کوئی سمجھائے استاد کو کہ انکے ضبط جاکے دیکھیے جنہوں نے اپنے پیارے اس وبا سے کھو دئیے جنکا آخری دیدار نصیب ہوا نہ قبر میں اتارنا۔۔اپنوں سے دور جن کی آخری ہچکی کس قدر اذیتناک ہوگی مگر ہماری عوام کو کون سمجھائے جو شب و روز کرونا جیسی مہلک وبا کے باعث کئی لوگوں کو اس دنیا جاتا دیکھ کر بھی اسے تماشا ہی سمجھے بیٹھے ہیں  خدارا ابھی بھی وقت ہے یہ وبا ہے اسے سنجیدگی سے سمجھیں اسکا خاتمہ صرف ہم ہی کر سکتے ہیں محدود ہوکر ان تمام اصولوں پر عمل کر کہ جو کسی بھی وبا کے دنوں  میں آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے ترتیب دئیے جا چکے ہیں مگر شرط عمل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :