سانحہ موٹر وے پر شاباشی کیسی؟

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Zakia Nayyar

ذکیہ نیر

لاہور موٹر وے پرحوا کی بیٹی کی عصمت دری پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل افسردہ ہے میڈیا کا بھلا ہو کہ کسی بھی ظلم و زیادتی کو کچھ روز خوب ٹٹولتا ہے شور مچاتا ہے پھر کسی نئے مسئلے کی آڑ میں پرانا واقعی اوجھل ہو جاتا ہے اس کی ہزار مثالیں موجود ہیں اب کی بار بھی معصوم بچوں کے سامنے ماں کی عزت لوٹی گئی تو ملوث افراد کی سر عام پھانسی کا مطالبہ ہر زبان پر ہے۔


لاہور کے رنگ روڈ سے تقریباً دس منٹ کی دوری پر لاہور تا سیالکوٹ موٹر وے کا ٹول پلازہ ہے جہاں مسافر تیس روپے ٹیکس دے کر اس روڈ پر سفر کرتے ہیں ٹیکس کی وصولی اس بات کی ضامن ہوتی ہے کہ "سفر اچھا اور محفوظ گزرے" خیر ٹیکس ادا کرنے کے بعد صرف دس منٹ کے فاصلے پر  لاہور ڈیفینس سے چلی خاتون کی گاڑی کا پٹرول ختم ہوا تو مدد کی اپیل پرلاہور پولیس ،موٹر وے پولیس ٹول پلازہ سیکیورٹی سب اندھے بہرے ہوگئے   اکیلی کھڑی خاتون کی جب عزت مال سب لٹ چکا تب بھی چار گھنٹے کی تاخیر پر محافظ ادارے پہنچے  اور محفوظ سفر کی ضمانت ان معصوم بچوں کے لیے زندگی بھر کا وہ ڈراؤنا خواب بن گئی جس کے ساتھ اب انہیں اس معاشرے میں جینا ہے۔

(جاری ہے)


واقعے کے بعد لاہور پولیس کا موقف کہ یہ علاقہ ہماری حدود سے باہر ہے جبکہ موٹر وے پولیس کا بیان کہ  یہاں گجر پور تھانہ لگتا ہے اب ایسے میں قانون کو تو فارغ ہی سمجھیےیعنی یہ علاقے لٹیروں کے زیر قبضہ ہیں وہ جسے چاہیں جب چاہیے لوٹ لیں۔۔۔
خیر پولیس کی حسب روایت نااہلی تو ایک جگہ واقعے کی انکوائری کرنے والے پولیس افسر کے بیان نے جلتی پر تیل چھڑک دیا سی سی پی او لاہور جنہیں میڈیا پر آنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ انکے پاس پبلک آفس ہے مگر وہ میڈیا پر آئے بھی اور ہمدردی انسانیت اور تسلی کے دو بول بولنے کے بجائے ڈرانے لگے کہ خاتون جی ٹی روڈ سے کیوں نہیں گئیں اکیلی کیوں نکلی پٹرول کیوں چیک نہیں کیا تو سی سی پی او صاحب گزارش ہے کہ وہ خاتون نہ جانے کن حالات میں رات بارہ بجے نکلی اس خاتون کو بالکل معلوم نہیں تھا کہ وہ انتہائی غیر محفوظ علاقے میں سفر کر رہی ہے جہاں تحفظ دینے والوں کے بجائے چوروں لٹیروں اور ڈاکوؤں کی حکمرانی ہے  جہاں اطلاع کے باوجود پولیس اپنی مرضی سے پہنچتی ہے ۔


یہ بیان داغنے کے بعد بھی لاہور کے سی سی پی او کو چین نہ آیا اور میڈیا کے کیمروں نے  انکی زبان سے نکلے وہ الفاظ محفوظ کر لیے جو موجودہ حکومت کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں فرماتے ہیں"خاتون فرانس سے آئی ہوئی ہیں انہوں نے اس ملک کو بھی فرانس سمجھ لیا وہاں قانون ہے، ادارے ہیں ،جواب دہی ہے، حکومتی رٹ ہے مگر یہاں ایسا کچھ نہیں اس ملک میں اکیلی سفر کرنے والی خاتون محفوظ نہیں" یہ الفاظ انکے ہیں جو اپنے حلف میں عوام کے تحفظ کی قسم کھاتے ہیں۔

ان الفاظ سے عوام تک پیغام پہنچایا گیا کہ اس ملک میں حکومتی رٹ ہی نہیں یعنی اب ہر کوئی اپنی حفاظت کے لیے بندوقیں تانے رکھے۔
سونے ہر سہاگہ کہ واقعے کہ بعد جس بھی حکومتی عہدیدار سے بات کی گئی وہ داد سمیٹنے کا شیدائی دکھا کہ حکومت پنجاب کو شاباشی دی جائے واقعے کے بعد کمیٹی بنی بیس ٹیمیں کام کر رہی ہیں ڈی این اے ہورہے ہیں اس پر عوام اور میڈیا  انہیں سراہے تو جناب وزیر اعظم صاحب اپنی ٹیم کو یہ بات سمجھائیے کہ یہ انکی زمہ داری ہے انکی جاب ہے واقعے کہ بعد بھی کیا انکو محض دکھاوے کے لیے ہی سہی ہاتھ پاؤں نہیں ہلانے چاہیئے؟ انکے ہلنے چلنے پر تو ہم تالیاں بجانے سے رہے۔

.اور خدارا خالی خولی نوٹس کمیٹیاں انکوائریاں ٹوئٹر پر مذمتی بیان یہ لولی پاپ اب عوام کے کسی کام کے نہیں تو دینے سے اجتناب برتیے۔
پولیس کی کارکردگی تو عوام کے سامنے ہے اب سر عام پھانسی پر بھی عمل درآمد تب ممکن ہے جب تفتیش کا تمام عمل بھی صاف شفاف اور عوام کے سامنے ہو بلکہ مقدمے کی کاروائی بھی سر عام نشر ہو تب جاکے انہیں انصاف ملے گا جنکی عزتیں ریاست مدینہ میں تار تار ہورہی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :