"شکریہ گورکن"

پیر 28 دسمبر 2020

Zakia Nayyar

ذکیہ نیر

کرونا نے دوہزار بیس کو ایک ایسا سال بنا دیا جو تاریخ کے صفحات میں درد، اذیت اور بے چارگی بن کر شامل رہے گا جہاں دنیا میں کئی لوگ اس وبا نے نگل لیے وہیں مرنے والوں سے دوری اور پھر تدفین تک کے مراحل میں اس وبا نے سوائے خلش کے کچھ نہ چھوڑا دنیا بھر میں جب بھی کوئی دار فانی کو کوچ کرتا ہے تو اسے اپنے مکمل رسومات کے ساتھ نئے جہاں کے سپرد کیا جاتا ہے مگر کرونا جیسی ملحق وبا نے مرنے والوں سے یہ حق بھی چھین لیا  جانے والا گورکن کے سپرد ہوا اور بھیجنے والوں کے ہاتھ خالی کے خالی۔


جو بھی کرونا کے شکنجے میں آیا تنہائی نے اسے اپنوں سے دور کر دیا پھر یہ وبا اسے اپنے پیاروں کو رخصت کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتی۔ایسی صورتحال نہ کبھی دیکھی نہ ہی سنی تبھی لوگ ذہنی طور پر اسے قبول کر ہی نہیں پارہے کہیں اجتماعی قبریں کھود کر مرنے والوں کو دفن کیا جارہا ہے کہیں عزیزوں رشتے داروں پر پابندی لگا کر اکیلے ہی حکومتی انتظامیہ شہر خموشاں میں قبریں بنوارہی ہے کیونکہ ہلاکت کے بعد یہ وائرس چند گھنٹوں تک کپڑوں پر زندہ رہتا ہے اسی لیے لاشوں کو فوری طور پر حفاظتی مواد میں لپیٹ کر دفنا دیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

۔اس انتہائی خطرناک صورتحال میں ایک شخص ایسا بھی ہے جس نے کرونا سے زندگی ہارنے والے کے لیے اپنے ہاتھوں سے قبر بھی بنائی اور تدفین بھی کی جی ہاں گورکن!
وبائی مرض سے اموات کا سلسلہ جاری ہے اور گورکن کا کام بھی نہ رکا نہ تھما سال ختم ہونے کو ہے شہر ویراں اور قبرستان آباد ہی ہوئے جارہے ہیں راولپنڈی کے ایک مقامی قبرستان کے گورگن چالیس سالہ رسول بخش بتاتے ہیں کہ وہ نسل در نسل یہ کام کر رہے ہیں مگر یہ صورتحال انکے دلوں پر بھی بھاری گزر رہی ہے جب مردے کو ایک تابوت میں بند لایا جاتا ہے نہ ہی اسے کوئی اپنا چھو سکتا ہے نہ آخری بوسہ دے پاتا ہے رسول بخش کہتے ہیں کہ انہوں نے قبرستانوں میں ایمبولینسوں کے پیچھے بھاگتی مائیں دیکھی جو صرف ایک بار اپنی بیٹی کو چھونا چاہتی تھی مگر وبا سے بچنے کے لیے اسے روک دیا گیا اور اسکے سامنے منوں مٹی تلے بیٹی سو گئی۔

۔ انہیں باعزت طریقے سے الوداع نہ کہنے کا ایسا غم ہے جو وہ روز لواحقین کی ویران آنکھوں میں دیکھتے ہیں ایسا موقع نہ ملنا بہت اذیت ناک ہوتا ہے رسول بخش کی آنکھوں میں آئے آنسو صاف بتا رہے تھے کہ وہ ہر روز کئی دوریوں میں لپٹی داستانیں بھی اپنے دل کی قبر میں اتارتے ہیں۔۔وہ روز بے بس آنسوؤں کو بہتا دیکھتے ہیں وہ موت سے تدفین تک کا یہ انوکھا سفر دیکھ بھی رہے ہیں اور اس سفر میں موجود دکھ کے بھی گواہ ہیں ۔

کیونکہ مرنے والوں کے رشتہ دار بھی وہ ہیں اور دور بیٹھے اپنوں کو قبروں میں اترتا دیکھنے والوں کے غم گسار بھی وہی گورکن۔۔۔۔مگر کرونا تو وبا ہے اور وبا بھلا کب دیکھتی ہے کہ اسکا شکار کون ہے تبھی رسول بخش بھی سوچتا ہےکہ
مصروف گورکن کو بھی شاید پتہ نہیں
وہ خود کھڑا ہوا ہے قضا کی قطار میں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :