قابل رحم کراچی۔۔۔۔

بدھ 26 اگست 2020

Zakia Nayyar

ذکیہ نیر

بارش برستے ہی سوندھی مٹی کی خوشبو سانسوں کو مہکانے لگتی ہے سوجی کا حلوہ اور پالک کے پکوڑے ٹپ ٹپ برستی برکھا کا مزہ دوبالا کر دیتے ہیں مگر یہ سب وہاں ہوتا ہے جب سوچ میں صرف موسم سے لطف اندوز ہونے کا خیال اٹھکیلیاں کر رہا ہو۔مگرہم تو بات کر رہے ہیں کراچی کی اس شہر کی جسکی معیشیت چلے تو ملک چلے جسکے محنت کش لوگ ملک کو ستر فی صد ریوینیو دیتے ہیں جسکی صنعتیں ہر دور میں چلتی رہیں چاہے دہشت گردی کے سائے ہوں یا ہڑتالوں کا خوف یہ شہر اپنےکام کی دھن میں جت کے ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتا رہا جسکے لوگ کبھی سیاسی تنظیموں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہے تو کبھی غداروں کے ہاتھوں گولیاں کھاتے رہے مگر قائد کے شہر کے باسی کسی رکاوٹ سے نہیں گھبرائے سوچنے کی بات یہ ہے کہ بدلے میں شہر کو آئی گئی حکومتوں نے  ان 73 سالوں میں کیا دیا؟
ملک کو بنے سات دہائیاں گزر گئی اور شہر کے مسائل جوں کے توں ہیں ایم کیو ایم کا راج رہا مگر رعایا خالی ہاتھ،جیئے بھٹو کے نعرے لگتے رہے اور عوام مرتی رہی ہے،"آئی آئی پی ٹی آئی آئی"کا نعرہ بھی کھوکھلانکلا۔

(جاری ہے)

۔ظلم کی انتہا کہ اسمبلی میں گالم گلوچ، قہقہے  اور الزم تراشی بڑے جوش وخروش سے ہوتی ہے  مگر کچرے سے چھٹکارا، مظبوط انفرا اسٹرکچر کا قیام،صحت جیسی بنیادی سہولت پر بات کرتے وقت عوام کے منتخب نمائندے گونگے بہرے ہو جاتے ہیں ۔تبھی تو اسکولوں میں گدھے ،ہسپتالوں میں کتے اور انتظامی دفاتر پر زنگ آلود تالے ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ بجلی کا نظام درہم برہم،صاف پانی کی فراہمی دیوانے کا خواب اور کچرے کی بو سے شہر کا شہر تعفن زدہ اب ایسے میں رہی سہی کسر بارش نے پوری کر دی گرمی میں بلکتی عوام پر جب اللہ نے اپنی رحمت برسائی تو شہر کی انتظامیہ کی نااہلی اور نالائقی نے اسے زحمت بنا دیا شہر کا شہر پانی میں ڈوب گیا نکاسی آب کا کوئی نظام نہیں گھر ڈوب گئے گاڑیاں ڈوب گئیں سڑکوں کی سڑکیں نہریں بنی دکھائی دے رہی ہیں اور ایسے میں مئیر صاحب ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں کہ" میرے پاس اختیارات نہیں"یہ سیاسی لطیفہ سن کر ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ جب اختیارات نہیں تو اتنا عرصہ تنخواہ کس چیزکی لی؟ دوسری طرف بھٹو والوں نےزبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھنے کی قسم کھائی ہے۔

۔ایسےمیں حل کیا ہے؟کیا کراچی کے باسی ایسے لا پرواہ رویوں کے حقدار ہیں یا معاشی حب کے مستقبل کے لیے  انہیں خود کوئی ٹھوس لائحہ عمل اپنانا ہوگا ورنہ آزمائے ہوؤں کو آزمانا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے ہی مترادف ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :