
ہائے یہ افلاطون
بدھ 26 فروری 2020

ذیشان نور خلجی
قارئین ! آپ تو جانتے ہیں جب رائٹر کو خود اندازہ نہ ہو رہا ہو کہ آخر اس نے کیا لکھ مارا ہے تو اسے افسانے کے طور پر پڑھتے ہوئے کیسا ردعمل سامنے آسکتا ہے۔
(جاری ہے)
کردار تخلیق کرنے کی بات ہو تو میرے مستقل ریڈرز کو اندازہ ہے کہ اپنی تحریروں میں میرے پیش نظر صرف میری ہی ذات ہوتی ہے۔ ایک غریب کے ' بال ' کو صرف اس کی پیدائش اور شادی پر ہی اہمیت ملتی ہے اور میں ایسا قیمتی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کہ یہ صفحہ مجھے مل رہا ہے۔ سو اپنا ہی کردار تخلیق کر کے اور اپنے ہی چرچے کر کے یہ صفحہ کالا کرتا رہتا ہوں۔ اور رہی بات سبق کی، تو قارئین ! آپ بھی جانتے ہیں میرے کالمز عموماً لا یعنی اور بے معنی قسم کے ہی ہوتے ہیں۔ گو شروع میں کوشش کی تھی کہ ان کے ذریعے کچھ ڈیلیور بھی کیا جائے۔ لیکن پھر جلد ہی ہاتھ کھینچ لیا۔ ایک تو مجھے اپنی نا اہلی کا بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ میں اس قابل نہیں کہ کسی کو نصیحت کر سکوں۔ دوسرا، مجھے یہ بھی پتا لگ گیا تھا بلکہ لگ پتا گیا تھا جنھیں میں عوام سمجھتا رہا ہوں وہ سب کے سب خواص میں شمار ہوتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں، بندہ خواص کو نصیحت کرتا اچھا لگتا ہے۔ اور جب خواص بھی اللہ کے فضل سے بقراطوں اور سقراطوں جیسے نابغوں پر مشتمل ہوں۔
اور یہاں صرف قلم برادری کو مخاطب کر کے کہوں گا آپ لوگوں کو بھی اس بات کا تجربہ ہوا ہوگا کہ کمنٹس میں یہ افلاطون قسم کے لوگ ہم غریبوں کو ' مت ' دینے کے لئے ایسے ایسے زریں اقوال ارشاد فرما رہے ہوتے ہیں کہ ہماری 'مت ہی وج' جاتی ہے۔ اور دل بے اختیار عش عش کر اٹھنے کو کرتا ہے بلکہ کبھی کبھی اٹھ ہی جانے کو کرتا ہے بھلا ان جیسے دانشوروں کے بیچ ہم جہلا کا کیا کام۔ ویسے اب ان جغادریوں کو بھی قلم اٹھا کے آگے آنا چاہئیے اور اگر یہ آگے آنے کو مان نہیں ریے تو میرے خیال میں یہ لوگ ماضی کے مشاہیر کی طرح کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں۔ ورنہ انہیں دیکھتے ہوئے مجھے اپنی کم مائیگی اور ان کے علمی مرتبےکا بخوبی اندازہ، اکثر ہوتا رہتا ہے۔ اب یہی دیکھئے نا، ہم لوگ سات آٹھ سو الفاظ میں بمشکل اپنا مدعا بیان کر پاتے ہیں۔ بلکہ پھر بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ آدھی باتیں بیچ میں ہی کہیں دب کے رہ گئی ہیں۔
اور یہ نابغہ روزگار ہستیاں چند ذاتی قسم کے القابات جو کہ اب شاید ہمیں مخاطب کرنے کے لئے ہمارے گھروں میں بھی رائج نہیں رہے کہ ہم بڑے ہو چکے ہیں اور ایک دو گالیوں کی صورت میں کمال خوبصورتی سے کوزے میں دریا بند کر دیتے ہیں۔
قارئین ! پھر وہی اوپر بیان کیا گیا مسئلہ درپیش ہے یعنی جگہ کی کمی مانع آ گئی ہے اور اصل بات کہیں بیچ میں ہی رہ گئی ہے۔ میں آٹھ سو لفظوں میں بھی اپنا مدعا بیان نہ کر سکا لہذا مجھے اجازت دیجئے۔ اب آئندہ کالم میں ہی مذکورہ تحریر کی بابت کچھ عرض کروں گا۔ اور میرا آج کا کالم،
ان پیارے افلاطونوں کے نام !
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ذیشان نور خلجی کے کالمز
-
امام صاحبان کے غلط رویے
بدھ 6 اکتوبر 2021
-
مساجد کے دروازے خواتین پر کھولے جائیں
منگل 28 ستمبر 2021
-
اللہ میاں صاحب ! کہاں گئے آپ ؟
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
مندر کے بعد مسجد بھی گرے گی
پیر 9 اگست 2021
-
جانوروں کے ابو نہ بنیے
جمعہ 23 جولائی 2021
-
عثمان مرزا کیس کے وکٹمز کو معاف رکھیے
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
بیٹیوں کو تحفظ دیجیے
پیر 28 جون 2021
-
مساجد کی ویرانی اچھی لگتی ہے
پیر 7 جون 2021
ذیشان نور خلجی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.