توہین رسالت، ایاز نظامی اور مذہبی طبقہ‎

پیر 18 جنوری 2021

Zeeshan Noor Khilji

ذیشان نور خلجی

ایاز نظامی کیس کا فیصلہ آنے کے بعد ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے، دین بیزار طبقے سے متعلق اپنی رائے دی تھی اور اس کا مقصد صرف اور صرف توازن قائم رکھنا تھا ورنہ تب بھی منشاء یہی تھی کہ اہل مذہب سے متعلق بات کی جائے۔ کیوں کہ ہمارے ملحد دوست بے شک جتنے بھی لبرل ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اندر سے وہ بھی مذہبی طبقات کی طرح انتہاء پسند واقع ہوئے ہیں لیکن اس خرابی کے باوجود وہ معاشرے میں ایسا تماشا لگانے کی طاقت نہیں رکھتے جو کہ مذہبی جماعتوں کا خاصہ ہے۔

لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ملحدین کوئی شریف النفس لوگ ہیں بلکہ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ من حیث القوم ہم جذباتی واقع ہوئے ہیں جب کہ دین بیزار طبقوں کی دوکان پر اس سودے کی کمی ہے۔ لہذا عوام بطور ایندھن صرف مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں ہی استعمال ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

اور میرے مخاطب چونکہ ہمیشہ سے عوام رہے ہیں سو عوامی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے مذہبی تناظر میں ہی اس فیصلے سے کچھ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔


جب کبھی توہین مذہب کے الزام میں کسی کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس حوالے سے علماء کا یہ موقف سامنے آتا ہے چونکہ یہاں عدالتوں میں انصاف نہیں ہوتا اس لئے ہم بیچ بازار عدالت لگا لیتے ہیں۔ حالانکہ علماء کرام کی یہ بات بالکل غلط ہے کیوں کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے یہاں توہین مذہب اور رسالت کے زیادہ تر مقدمات مخالف مسلک کے علماء پر ہی کروائے جاتے ہیں۔

اور یہ بات یقیناً آپ لوگوں کی نظر سے بھی گزری ہوگی کہ اکثر و بیشتر بریلوی مسلک کی طرف سے دیوبندیوں کے مولوی زیر عتاب آتے ہیں۔ میں خود ایسے بہت سے علماء کو جانتا ہوں جنہوں نے پرسوں اپنی اپنی مساجد میں نماز جمعہ کی امامت کروائی حالانکہ ماضی میں وہ لوگ توہین رسالت جیسے گھناؤنے الزام کی پاداش میں جیل بھگت چکے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لئے سوچیے، اگر یہ لوگ واقعی گستاخ تھے تو پھر آج ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے سینکڑوں لوگ کیا ہیں؟ اور اگر یہ گستاخ نہیں تھے اور واقعی نہیں تھے تو پھر مخالف مسلک کے علماء کرام کیا ہیں؟ اور محشر میں ان جعلی عزت مآب ہستیوں کا کیا بنے گا؟ ایسے گھٹیا الزام لگانے والے علماء کرام کو کبھی خیال نہیں آیا کہ ہم نبی پاک ﷺ کو کیا جواب دیں گے کہ ہم آپ کی ناموس سے متعلق قانون کا استعمال مخالفین کو زیر کرنے کے لئے کرتے رہے۔


دوستو ! اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ چند مخصوص مذہبی جماعتوں کے منظر عام پر آنے سے یہ توہین توہین کا شور بلند ہوا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں تھا۔
؂کہاں اکا دکا توہین کا واقعہ
     اور اب ہر روز اک نیا سیاپا
کیا یہاں پہلے توہین نہیں ہوتی تھی؟ یا تب ہمارے ایمان اتنے پختہ نہیں تھے کہ ایسے آوازے بلند کرتے؟ دراصل جہاں چھیانوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہو، وہاں نہ تو پہلے کبھی توہین رسالت ہوتی تھی اور نہ ہی آج ہوتی ہے کیوں کہ ایک مسلمان اپنے نبی ﷺ کی شان میں کمی لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

جب کہ یہاں اکثر ایسے الزامات کا سامنا بھی مسلمانوں کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر بات کی جائے اقلیتوں کے حوالے سے، تو عقل بھی اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ جہاں اکثریت ہی اپنے ہم مذہبوں کے شر سے محفوظ نہیں وہاں یہ بیچارے چار فیصدیے اٹھ کے نعرہ لگائیں گے کہ آ بیل مجھے مار۔ گو ایسا ممکن ہے لیکن اس حد تک نہیں جتنا کہ مذہبی جماعتوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔

وہ کیا کہتے ہیں کہ جب ہاتھ میں ہتھوڑی ہو تو ہر مسئلہ کیل نظر آتا ہے بس یہی ادھر بھی ہو رہا ہے۔ جب ایک جماعت بنائی ہی ناموس رسالت کے لئے ہے تو اسے جا بجا توہین ہی نظر آئے گی۔ جب کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے اور توہین سے متعلق علماء اور فقہا کی رائے کو قانون کا درجہ حاصل ہے تو پھر یہاں ایسی جماعتوں کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ اب کوئی صاحب اعتراض کریں گے کہ کیا یہ اسلامی ملک ہے تو ان کی خدمت میں عرض ہے جیسے ہم مسلمان ہیں ویسے ہی یہ اسلامی ملک ہے۔


دیکھیے، مذہب کی توہین فساد فی الارض ہے اور جب ہم اس برائی کو ختم کرنے کے لئے قانون کو ہاتھوں میں لیتے ہیں تو دراصل خود بھی فساد فی الارض کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی ایسے ہر معاملے میں مسلمانوں کی واضح اکثریت گروہوں میں بٹی نظر آتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا جب چکوال میں ایک چوکیدار نے بنک مینجر کو توہین کا الزام لگا کر قتل کیا تو احمق ہجوم نے اسے غازی ڈکلئیر کر دیا اور اس کے پیر صاحب بھی اسے آشیر باد دیتے رہے۔

جب کہ دوسری طرف مقتول کا جنازہ پڑھانے والے عالم دین نے اعلان کیا کہ بنک مینجر نے گستاخی نہیں کی اور وہ معصوم تھا۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ آپ کس کے ساتھ ہیں؟ میرا خیال ہے آپ کو ضرورت ہی نہیں کسی کا ساتھ دینے کی۔ یہاں دنیا میں ریاستی عدالت فیصلہ کر لے گی، وہاں آخرت میں ربانی عدالت فیصلہ کر لے گی۔ آپ کے کرنے کا کام یہ ہے کہ جب بھی ایسا کوئی واقعہ سامنے آئے تو ان مذہبی جتھوں سے اپنا دامن بچا کے رکھیے اور ان کے آلہ کار بن کر خدا اور قانون کے مجرم نہ بنیے۔

جب ان گروہوں کو اور ان کے غازیوں کو آپ کی سپورٹ نہیں رہے گی تو یہ خود ہی جھاگ کی مانند بیٹھ جائیں گے کیوں کہ یہ صرف عوامی کندھوں پر ناچتے ہیں۔ اور ایاز نظامی کیس کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی آپ کے پاس خود کو سمجھانے کے لئے ایک اچھی دلیل آ گئی ہے کہ عدالتیں اب ٹھیک فیصلے کرنے لگی ہیں اس لئے ہمیں پیچھے ہٹ جانا چاہئیے۔ گو عدالتیں پہلے بھی ٹھیک فیصلے کرتی تھیں۔

عدالتوں کے جج صاحبان بھی مسلمان ہیں بلکہ ہم سے اچھے ہی مسلمان ہیں کہ وہ فارغ بیٹھے چندے نہیں ڈکارتے بلکہ سرکار سے حق حلال کی تنخواہ لیتے ہیں۔
اور جن لوگوں کا موقف ہے کہ ہمیں توہین رسالت جیسے نازک موضوعات پر بات نہیں کرنی چاہئیے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جب علماء اس قانون کی آڑ میں اپنے الو سیدھے کریں گے تو مزاحمت کی جو آواز بلند ہوگی دراصل وہی نوائے حق ہوگی لہذا آپ اسے حساس موضوع کہہ کر حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے بلکہ یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ بھی ایسے حساس معاملات پر سوچیں، غور کریں اور جہاں تک ممکن ہو حق کی آواز بلند کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :