چین بھارت تنازع اور چین کا مؤقف

ہفتہ 20 جون 2020

Zubair Bashir

زبیر بشیر

چین دنیا کا ایک ذمہ دار ملک ہے۔ چین نے ہمیشہ اختلافات کو تنازعات بننے سے روکنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ تاریخی اعتبار سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ ایک ایٹمی قوت اور طاقتور معاشی طاقت ہونے کے باوجود چین ہر مسئلے پر بات چیت اور مذاکرات کو ترجیح دیتا ہے۔ چین کے تمام ہمسائیہ ممالک کے ساتھ مثالی تعلقات ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی اور چینی حکومت کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اختلافات کو بھلا کر تمام تر توجہ عوام کی فلاح و بہبود پر مرکوز کی جائے۔

یہ چین کی ان مخلصانہ کوششوں کا  ہی ثمر ہے کہ آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ اس برس چین ایک اور بڑا سنگ میل عبور کرنے جارہا ہے اور وہ ہے ملک سے مکمل طور پر غربت کا خاتمہ۔ چین نہ صرف اپنے ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کا خواہاں ہے بلکہ تمام بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے قیام کا تصور پیش کرنے والا ملک ہے۔

(جاری ہے)

چین کی  ان مخلصانہ کوششوں کو پڑوسی ملک بھارت نے شاید کمزوری سمجھا  لیااور چینی علاقے میں دراندزی کی بار بار کوشش کی۔

جس نے موجودہ تنازعے کو جنم دیا۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان چاؤ لی جیان نے چین اور بھارت کے درمیان گلوان وادی میں ہونے والے تنازعہ کے بارے میں تفصیلات سے دنیا کو آگاہ کردیا ہے ۔ چاؤ لی جیان نے کہا کہ گلوان وادی چین اور بھارت کی سرحد کے مغربی حصہ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول میں چین کی طرف واقع ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے چین کی سرحدی دفاعی فوج اس حصے میں معمول کے مطابق اپنے فرائص سرانجام دے رہی ہے۔

اس سال اپریل سے بھارتی سرحدی فوج یک طرفہ طور پر گلوان وادی میں سڑکوں اور پلوں سمیت دیگر تنصیبات کی تعمیر کررہی ہے۔چھ مئی کی صبح سویرے بھارتی سرحدی دفاعی فوج  گلوان وادی میں سرحد پار کر کے چین کی سرزمین میں داخل ہوئی اور تنصیبات کی تعمیر شروع کردی، چینی سرحدی دفاعی فوج نے انہیں اس کام کو  سرانجام دینے کو روکا تو بھارتی فوج اشتعال انگیز حربوں پر اتر آئی۔

بھارت نے یک طرفہ طور پر حقیقی لائن آف کنٹرول کی موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔جواباًچینی سرحدی دفاعی فوج کو ضروری اقدامات اختیار کرنا پڑے اور فوری طور پر سرحدی علاقے پر اپنے کنڑول کو مضبوط بنانا پڑا۔چھ جون کو دونوں سرحدی افواج کے رہنماؤں کی ملاقات ہوئی اور سرحدی علاقے میں صورتحال کو معمول پر واپس لانے پر اتفاق کیا گیا۔

لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ پندرہ جون کی شام کو بھارت کی فرنٹ لائن پر موجود سرحدی فوج نے کھلم کھلا  فریقین کے حاصل کردہ اتفاق رائے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حقیقی کنڑول لائن سے پار کر اشتعال انگیز کارروائی کی اور چینی فوجی اہلکاروں پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا۔بھارتی فوج کی کارروائی سے سرحدی علاقے میں استحکام کو نقصان پہنچایا گیا، چینی اہلکاروں  کی جان کو خطرات سے دوچار کیا گیا ، دونوں ممالک کے درمیان سرحدی امور پر حاصل کردہ اتفاق رائے کی خلاف ورزی کی گئی اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصو ل کی نفی کی گئی۔

چین نے اس حوالے سے بھارت کو اپنی شدید تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔
سترہ جون کو چینی ریاستی کونسلر اور وزیرخارجہ وانگ ای نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ایک بار پھر چین کے موقف کا اعادہ کیا انہوں نے بھارت سے واقعے کی تحقیقات کرنےاور اشتعال انگیز کارروائیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہوسکے۔

فریقین نے  گلوان وادی  میں تنازعہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے سنگین واقعے  سے منصفانہ  طور پر نمٹنے ، مشترکہ طور پر فریقین کے مابین فوجی رہنماؤں کے مذاکرات میں حاصل کردہ  اتفاق رائے پر عمل  کرنے  ، جلد از  جلد صورتحال کو معمول پر واپس لانے اور دونوں ملکوں کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق سرحدی علاقے میں امن و سکون برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔


چین کے  سرحدی تنازعہ میں گرفتار کئے گئے بھارتی سپاہیوں کو رہا کرنے کی اطلاعات کے جواب میں چینی ترجمان نے اسی  روز منعقدہ رسمی پریس کانفرنس میں کہا کہ چین نے کسی بھی بھارتی  اہلکار کو حراست میں نہیں لیا۔
بھارت اور چین کے مابین ایک ایسے وقت میں تنازعے کا پیدا ہونا جب دنیا کووڈ ۱۹ کی وبا کیخلاف لڑائی میں مصروف ہے، اس بات کی دلیل ہے کہ مودی اپنی حالیہ ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قومی مغالطوں سے توجہ ہٹانے کیلئے بیرون ملک جارحیت بھارت کی خارجہ پالیسی کا حصہ رہی ہے۔ بھارت بظاہر چین کو ایک جارح فریق ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے تاہم حقائق اس کے منافی ہیں۔ حالیہ اشتعال انگیزی بھارت کو بہت مہنگی پڑی ہے۔ چین نے اب یہ بات بالکل واضح کردی ہے کہ گلوان وادی چین کا حصہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :