مشاہد اللہ خان کی جانب سے پیپلز پارٹی پر کراچی میں دہشتگردوں کی پشت پناہی و دیگر ریمارکس پر ایوان بالا میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان نازیبا الفاظ کااستعمال

ایوان مچھلی منڈی بن گئی ، اپوزیشن کی حکومت پر شدید تنقید ، مشاہد اللہ خان کی تقریر کے دوران اپوزیشن لیڈر شیریں رحمان ان کے تندوتیز جملوں کا سامنا کرنا کرتے ہوئے ایوان سے چلی گئی

بدھ 2 مئی 2018 23:34

ٓاسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 02 مئی2018ء) وفاقی وزیر برائے موسمی تغیرات مشاہد اللہ خان کی جانب سے کراچی میں دہشتگردوں کی پشت پناہی پیپلز پارٹی کے سینیٹر کو ٹن پارٹی او رپنجاب میں ہم ترقیاتی کام کرتے ہیں اور یہ پیسہ کھا جاتے ہیں، یہ انکشاف کے ضیاء الحق کا تحریک جماعت کا آغاز ہوا تو آصف علی زرداری سندھ میں اس کے صدر بنے ۔

ان ریمارکس پر ایوان بالا میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان سینٹ میں نازیبا الفاظ کا استعمال ، ایوان مچھلی منڈی بن گئی ۔ اپوزیشن کی حکومت پر شدید تنقید مشاہد اللہ خان کی تقریر کے دوران اپوزیشن لیڈر شیری رحمان ان کے تندو تیز جملوں کا سامنا نہ کرتے ہوئے ایوان سے چلی گئیں ۔ بدھ کے روز مشاہد اللہ خان نے بجٹ تقریر کے آغاز سے پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ عزیر بلوچ جب کراچی میں معصوم لوگوں کے قتل عام میں ملوث تھا ایک مافیا سرگرم عمل تھا ۔ مائوں،بہنوں اوربیٹیوں کا قتل عام ہورہا تھا فریال تالپورعزیر بلوچ سے جاکر ملتی تھی۔ آصف علی زرداری اس کی سرپرستی کرتا تھا جس پر پیپلز پارٹی کے سینیٹرز اپنی نشستوں پر کھڑے ہرگئے اور براہ راست نازیبا الفاظ کا استعمال شروع ہوگیا ۔

سینٹرسسی پلیو ، میرا بخش ، مولا بخش چانڈیو اس تقریر کے رد عمل میں مشتعل ہوگئے تو پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے نازیبااشارے کرنا شروع کردئییجس پر مشاہد اللہ خان نے کہا جناب چیئرمین سینٹ ایسا ماحول ایوان میں بھی نہیں دیکھا حیران ہوں کہ جب یہ تقریر کرتے ہیں تو ہم سنتے ہیں ۔ ہماری باتر کے دوران ان کی قوت برداشت ہی جواب دے جاتی ہے۔ انہوں نے سسی بلیجو کی جانب دیکھ کر کہا کہ مولا بخش چانڈیو اس سے پوچھو بہت تکلیف ہوتی ہے۔

یہ بہت پیسے دے کر سینیٹر بنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس سینیٹرز کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے وہ بڑی رقم دے کرسینیٹرز بنتے ہیں۔ ہم میں قوت برداشت زیادہ ہے سندھ میں بجٹ کھا جاتے ہیں جبکہ ہم ترقیاتی کام کرتے ہیں ۔ جو عملاًنظر آتے ہیں جس کا اعتراف ملکی اور بین الاقوامی میڈیا اور غیر ملکی مشیر اور نمائندے کرتے ہیں ۔ سندھ کے لوگ جب پنجاب میں داخل ہوتے ہیں تو ترقیاتی کام دیکھ کر وہ کہتے ہیں کہ ان کے حکمرانوںنے ان کا استعمال کیا جس پر پیپلز پارٹی کے آرائیں دوبارہ اپنی اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے ۔

مشاہد اللہ خان کی تقریر کے دوران چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی بے بسی کا حال دیکھنے والا تھا۔وہ کہہ رہے تھے کہ بجٹ پر تقریر کریں تو مشاہد اللہ نے کہا کہ دہشتگردی انتہا پسندی کرپشن اور سندھ کے لوگوں کو ترقیاتی عمل سے محروم رکھا بجٹ کا حصہ نہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ لوگوں کی بات کرنا ان کے حقوق کا استحصال کرنے والوں کو بے نقاب کرنا بجٹ کا حصہ نہیں جس پر چیئرمین سینٹ ان سے بار بار درخواست کرتے رہے کہ ماحول کو خراب نہ کیا جائے ۔

ایوان کو چلنے دیں ۔ چیئرمین سینٹ بار بار سسی بلیجو، مولا بخش چانڈیوسمیت دیگر سینیٹرز سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ جائیں۔ پیپلز پارٹی کے احتجاج کے پیش نظر چیئرمین سینٹ سے ایوان چلانا مشکل ہوگیا تو مشاہد اللہ نے ایک تجویز پیش کی کہ پیپلز پارٹی والوں سے کہیں کہ واک آئوٹ کیوں نہیں کرتے تاکہ کرپشن کرنے والوں کے چہرے بے نقاب کروں مشاہد اللہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی والوں آج تمہیں بتاتا ہوں تمہیں تاریخ کا علم نہیں۔

نواز شریف پر تنقید کرتے ہو تاریخ سچا واقعہ بتاتا ہوں۔ ملٹری ڈکٹیٹر جب ضیاء الحق نے ضیاء جماعت تحریک کا اعلان کیا تو سندھ کے اندر تحریک کے صدر آصف علی زرداری تھے۔ جس پر تمام سینیٹرز کو سانپ سونگھ گیا اور کوئی بھی اپنی نشست سے کھڑا نہیں ہوا۔ تو مشاہد اللہ نے کہا کہ آئندہ الیکشن میں بھی تمہیں جب کردار دینگے تو ہم ہمیشہ وکٹری سٹینڈ پر کھڑے رہیں گے ۔

ترقیاتی کام کرین گے اور آئندہ بھی ہماری حکومت ہوگی دہشت گردوں کی پشت پناہی اور کرپشن کرنے والون کے چہرے بے نقاب کرتا رہوں گا۔ ہائوس آف فیڈریشن کے اراکین نئی روایت قائم نہ کریں صبر سے تقریر سنا کریں پارلیمانی روایت کو خراب نہ کریں انہوں نے کہا کہ جو کونسل خانوں سے اٹھ کر زیادہ پیسے دیکر کر ایوان بالا میں پہنچے انہیں زیادہ تکلیف ہورہی ہے ۔

کیونکہ ان کا سپاہ سالار ان کو یاد آرہا ہے انہوں نے شیری رحمن کی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ کہ ہم نے ان کو صبر سے سنا مگر وہ اپنی نشست پر موجود نہیں ۔ جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے انہیں درخواست کی کہ وہ بحث کو سمیٹیں مشاہد اللہ کی تقریر کے درمیان ان کے خوبصورت اشعار ایوان میں سب کی توجہ کے مرکز بنے انہوں نے پیپلزپارٹی کے ٹن سینیٹرز کے حوالے سے بھی اشعار پڑھے جس پر قہقہے بلند ہوئے۔ حکومتی سینیٹرز نے ڈیسک بجائے۔