کامیاب حکومتی پالیسیوں سے قومی معیشت بحال ہو کر استحکام کی راہ پر گامزن ہوئی ہے، شاہد خاقان عباسی

عوام نے کارکردگی کیلئے ہمیں ووٹ دیا ، ہم نے کارکردگی کے ذریعے ووٹ کو عزت دی ہے، ملک کو ہونیوالا فائدہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے، ہم نے ایمنسٹی نہیں ،انکم ٹیکس ریفارمز متعارف کرائی ہیں ،سیاسی استحکام جاری رہتا تو اقتصادی اشاریے مزید بہتر ہوتے، بیرونی قرضوں کی شرح میں کمی آئی ہے، نیب نے حکومت کو مفلوج کر دیا ہے، اگر ہم مل بیٹھ کر اپنے بنیادی مائل حل کرلیں تو اقتصادی پاور خود بخود بن جائینگے،فاٹا بارے پارلیمنٹ نے توقعات سے بڑھ کر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، آئندہ انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوکر حکومت بنائیگی، وزیراعظم کی پانچ سال حکومتی مدت کے دوران اقتصادی کارکردگی بارے پریس کانفرنس

پیر 28 مئی 2018 22:01

کامیاب حکومتی پالیسیوں سے قومی معیشت بحال ہو کر استحکام کی راہ پر گامزن ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 مئی2018ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ معاشی اعداد و شمار سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کامیاب پالیسیوں اور دور رس وژن کی عکاسی ہوتی ہے جس سے قومی معیشت بحال ہو کر استحکام کی راہ پر گامزن ہوئی ہے، معیشت ترقی کرتی ہے تو روزگار اور کاروبار کے مواقع بڑھتے ہیں،عوام نے کارکردگی کیلئے ہمیں ووٹ دیا ، ہم نے کارکردگی کے ذریعے ووٹ کو عزت دی ہے، ملک کو ہونے والا فائدہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے، ہم نے ایمنسٹی نہیں ،انکم ٹیکس ریفارمز متعارف کرائی ہیں ،لوگوں کو موقع دیا وہ اس سے استفادہ کریں،سیاسی استحکام جاری رہتا تو اقتصادی اشاریے مزید بہتر ہوتے، ملک کا نقصان نہ ہوتا، بیرونی قرضوں کی شرح میں کمی آئی ہے، نیب نے حکومت کو مفلوج کر دیا ہے، حکومتیں ایسے نہیں چل سکتیں، ضروری ہے ایک قومی ڈائیلاگ ہو جس میں سول ملٹری ورکنگ ریلیشن شپ، عدلیہ کے کردار و دیگر اہم معاملات پر کھل کر بحث ہو، اگر ہم اس طرح کے بنیادی مسائل کو حل کر لیں تو اقتصادی پاور خود بخود بن جائیں گے،فاٹا کے حوالے سے پارلیمنٹ نے توقعات سے بڑھ کر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، آئندہ انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوکر حکومت بنائیگی۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نے یہ بات پیر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی پانچ سالہ مدت کے دوران اقتصادی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ وزیراعظم نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی 5 سالہ اقتصادی کارکردگی کے حوالہ سے مختلف اقتصادی شعبہ جات میں 2013ء اور 2018ء کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ2013ء میں جی ڈی پی کی نمو 3.68 فیصد تھی اور آج 5.79 فیصد ہے، صنعتی ترقی 2013ء میں 0.75 فیصد تھی، 2018ء میں 5.8 فیصد ہے، لارج سکیل مینوفیکچرنگ جولائی تا مارچ 2013ء میں3.35 فیصد جبکہ 2018ء میں 5.89 فیصد رہی، تعمیرات کے شعبہ میں بے پناہ کام ہوئے ہیں، اس شعبہ میں 2013ء میں گروتھ 1.08فیصد سے 2018 میں بڑھ کر 9.13 فیصد ہو گئی جو کہ 8 گنا اضافہ ظاہر کرتی ہے۔

وزیراعظم نے بتایا کہ سروسز سیکٹر کی گروتھ 2013ء میں 5.13 فیصد اور 2018 میں 6.43فیصد، زرعی نمو 2013ء میں 2.68 فیصد سے 2018ء میں 3.18 فیصد رہی جو گذشتہ 13 سالوں میں سب سے زیادہ رہی۔ زرعی قرضہ 2013ء میں 259 ارب روپے تھا اور اب یہ 736 ارب روپے ہو گیا۔ زرعی شعبہ کی کارکردگی کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ گندم کی پیداوار 2013ء میں .21 24 ملین ٹن تھی جبکہ 2018ء میں بڑھ کر 25.49 ملین ٹن ہے۔

گنے کی پیداوار 2013ء میں 63.75 ملین ٹن سے بڑھ کر 81.1 ملین ٹن ہو گئی۔ مہنگائی کی صورتحال کے حوالہ سے وزیراعظم نے بتایا کہ ہر لحاظ سے افراط زر کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے، افراط زر کی شرح 2013ء میں 7.7 فیصد تھی جو 2018ء میں کم ہو کر 3.77 فیصد رہ گئی، فوڈ میں افراط زر 7.75 فیصد سے 2018ء میں کم ہو کر 1.77 فیصد ہو گئی جبکہ نان فوڈ آئٹمز میں 2013ء کی افراط زر8.22 تھی جو 2018ء میں 5.17 فیصد رہی۔

نان فوڈ نان انرجی کے شعبہ میں 2013ء میں افراط زر 9.91 فیصد سے کم ہو کر 2018ء میں 5.6 فیصد رہ گئی۔ اس طرح ہر لحاظ سے افراط زر میں نمایاں کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات کے چیلنجز رہے ہیں، ان چیلنجز سے نبرد آزما ہوئے ہیں، 2013ء میں برآمدات 55 20. بلین ڈالر تھی جبکہ 2018ء میں 20.6 بلین ڈالر ہے۔ اس سیکٹر میں کمی ہوئی لیکن واپس اسی پوزیشن پر آ چکے ہیں، دنیا بھر میں برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ہماری برآمدات بحال ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ درآمدات کے شعبہ میں بھی ایک بڑا چیلنج درپیش رہا، 2013ء میں درآمدات 33.4 بلین ڈالر تھیں جبکہ 2018ء میں یہ 45.6 بلین ڈالر رہیں۔ اس کی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی تھی لیکن اب پٹرولم مصنوعات کی قیمتیں 2013ء کی پوزیشن پر آ چکی ہیں اس کے ساتھ ساتھ مشینری کی درآمدات، سی پیک اور دیگر شعبوں میں جو گروتھ ہوئی اس سے بھی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بیرون ملک کارکنوں کی ترسیلات زر 2013ء میں 11.75 بلین ڈالر تھیں جبکہ 2018ء میں یہ بڑھ کر 16.26 بلین ڈالر ہو گئیں۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 2013ء میں 0.86 بلین ڈالر تھی جو اب 2018ء میں 2.24 بلین ڈالر ہے، غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 2013ء میں 11.62 ارب ڈالر تھے جو بڑھ کر 2018ء میں 16.23 ارب ڈالر ہو گئے۔ فی کس آمدن 2013ء میں 1334 ڈالر جبکہ 2018 میں فی کس آمدن 1641 ڈالر رہی۔

انہوں نے کہا کہ مجموعی سرمایہ کاری 2013ء میں 3.348 ٹریلین روپے تھی جو 2018ء میں 5.65 ٹریلن روپے کے قریب ہے۔ اس میں دو بنیادی عوامل ہیں۔ ایک پبلک انوسمنٹ میں 1.73 ٹریلین روپے کی گروتھ ہوئی ہے جبکہ پرائیوٹ انوسمنٹ بھی 3.77 ٹریلین روپے ہو گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ بے نظیر انکم سپوٹ پروگرام 2013ء میں 46.5 بلین روپے کی سطح پر تھا جبکہ 2018ء میں 121 بلین روپے رکھے گئے ہیں اور مستفید ہونے والے افراد کی تعداد 37 لاکھ سے بڑھ کر 56 لاکھ تک پہنچ گئی ہے اور ماہانہ رقم بھی بڑھا کر 5 ہزار کر دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیپٹل مارکیٹ میں پاکستان سٹاک ایکسچینج کے انڈیکس نے 52.876 پوائنٹس کے ساتھ مئی 2017ء میں تاریخی ترقی کی، سیاسی سرگرمیوں سے سٹاک ایکسپینچ کے پوائنٹس میںکافی کمی ہوئی تھی، اب سٹاک ایکسچنج بحال ہو رہی ہے۔ 2013ء میں 2876 کمپنیاں ان کارپوریٹ ہوئی تھیں، 2018ء میں 8349 کے قریب کمپنیاں ان کارپوریٹ ہوئی ہیں۔ ایف بی ار نے 2013ء میں ایک ٹریلین 505 بلین روپے کی وصولیاں کیں جبکہ 2018ء میں 2 ٹریلین 919 بلین روپے وصول کئے۔

وزیراعظم نے بتایا کہ محصولات وصولی کی شرح میں 65 فیصد اضافہ ہوا۔وزیراعظم نے کہا کہ 2013ء سے آج کی معیشت کا موازنہ کیا جائے تو عوام خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ صورتحال میں کتنی زیادہ بہتری آئی ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ آئندہ حکومت مزید بہتری لائے گی۔ امید ہے کہ آئندہ حکومت ہماری ہی ہو گی اور اس سے مزید بہتری آئیگی۔ وفاقی سرکاری ملازمین کو تین بنیادی تنخواہوں کے اعزازیہ سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر سال حکومت اعزازیہ دیتی ہے جو یکساں نہیں ہوتا تھا، کسی وزارت میں دو بنیادی تنخواہیں، کسی میں تین اور کسی میں پانچ تنخواہیں اعزازیہ کے طور پر دی جاتی تھیں ہم نے اس کو یکساں کر دیا ہے، حکومت کا کوئی اضافی خرچہ نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں قرضے لے کر گروتھ حاصل کی جاتی ہے، ہماری حکومت نے جو قرضے لئے اس سے سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ملک کو ہونے والا فائدہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے، ہم نے ایمنسٹی نہیں بلکہ انکم ٹیکس ریفارمز متعارف کرائی ہیں اور لوگوں کو موقع دیا کہ وہ اس سے استفادہ کریں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام سے مارکیٹ اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے، عدم استحکام ہو تو اس کے اثرات بتدریج نظر آتے ہیں، دھرنے کے اپنے منفی اثرات تھے، پانامہ، 28 جولائی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے اپنے اثرت تھے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی استحکام جاری رہتا تو اقتصادی اشاریے مزید بہتر ہوتے، ملک کا نقصان نہ ہوتا۔ گردشی قرضہ سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں توانائی کی صورتحال کے بارے میں کل یا پرسوں پریس کانفرنس کریں گے، اس کی وضاحت آ جائے گی، 2013ء سے 50 فیصد سے زائد بجلی اس وقت میسر ہے۔ انہوں نے کہا کہ گردشی قرضہ میں کمی نظر آ رہی ہے حالانکہ بجلی کی دستیابی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

نگران وزیراعظم کے حوالہ ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف یا آصف زرداری نے کبھی یہ نہیں کہا کہ انہیں نگران وزیراعظم کی حیثیت سے سابق جج قبول نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعظم کی نامزدگی کا معاملہ اتفاق رائے اور خوش اسلوبی سے طے پا گیا ہے اور بہترین شخصیت سامنے آئی ہے۔ فاٹا کو رقوم کی دستیابی سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں کی کمٹمنٹ پائی جاتی ہے، فاٹا کے حوالہ سے ایک عمل شروع ہوا ہے اور جاری، توقعات سے بڑھ کر پارلیمنٹ نے کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

بیرونی قرضوں سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ جی ڈی پی کے تناظر میں دیکھا جائے تو بیرونی قرضوں کی شرح میں کمی آئی ہے، دنیا بھر میں قرضوں کو جی ڈی پی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے، قرضوں سے ہی پوری دنیا میں نمو آتی ہے، جب ہم آئے تو ٖغیر ملکی قرضہ جی ڈی پی کا 21.4 فیصد تھا جو آج 20.5 فیصد ہے۔ روزگار کی فراہمی سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ معیشت ترقی کرتی ہے تو روزگار اور کاروبار کے مواقع بڑھتے ہیں، 2013ء میں بے روزگاری کی شرح 6.2 فیصد تھی جو اب 5.2 فیصد ہے۔

سکولوں میں بچوں کے اندراج کے متعلق انہوں نے کہا کہ سکولوں میں بچوں کی انرولمنٹ کا معاملہ صوبائی معاملہ ہے، ہم ان کو وسائل مہیا کر دیئے ہیں، حکومت کا کام وسائل کا مہیا کرنا تھا اور ہم نے یہ کام کیا ہے۔ نواز شریف کے بیانیہ سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں لوگوں نے ووٹ کارکردگی کیلئے دیا تھا، ہم نے اپنی کارکردگی کے ذریعے ووٹ کو عزت دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں یہ ایشو ہوتا ہے کہ طاقت کس کے پاس ہے، یہ ایشو ہر جگہ موجود ہے، میں نے کئی پارلیمنٹ کے فلور پر بھی کہا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کو کام کرنے نہیں دیا جا رہا، نیب نے حکومت کو مفلوج کر دیا ہے، حکومتیں اس طرح نہیں چل سکتیں، اس لئے ضروری ہے کہ جو حکومت آئے ایک قومی ڈائیلاگ ہو جس میں سول ملٹری ورکنگ ریلیشن شپ، عدلیہ کے کردار اور دیگر اہم معاملات پر کھل کر بحث ہو، جمہوری معاشروں میں اس طرح کے مباحثے ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس طرح کے بنیادی مسائل کو حل کر لیں تو اقتصادی پاور خود بخود بن جائیں گے۔