تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے آزادکشمیر حکومت کے اختیارات کی بحالی ایک خواب تھا جس کی تعبیر ممکن ہوئی ہے ،ْراجہ نثاراحمد

تیرہویں آئینی ترمیم کے بعد پاکستان کے ساتھ نظریاتی رشتے مضبوط ہونگے اور آزادکشمیر کی ترقی و خوشحالی کا سفر شروع ہوگا ،ْوزیر برقیات

پیر 2 جولائی 2018 17:09

مظفر آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 جولائی2018ء) آزادکشمیرحکومت کے وزیر برقیات راجہ نثار احمد خان نے کہا ہے کہ تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے آزادکشمیر حکومت کے اختیارات کی بحالی ایک خواب تھا جس کی تعبیر ممکن ہوئی ہے ۔ کشمیر کونسل کا قیام مجبوری کی حالت میں قبول کیا گیا تھا ۔1975کے الیکشن میں تمام سیاسی جماعتیں ایک طرف تھیں جبکہ مسلم کانفرنس نے بائیکاٹ کیا تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یکطرفہ ترمیم کے ذریعے ایکٹ74کی اصل ہیئت تبدیل کی گئی۔

ایک گھر کے دوسربراہ بن جائیں تو گھر چل نہیں سکتا ۔تیرہویں آئینی ترمیم کے بعد پاکستان کے ساتھ نظریاتی رشتے مضبوط ہونگے اور آزادکشمیر کی ترقی و خوشحالی کا سفر شروع ہوگا۔ اپنے آفس چیمبر میں سینئر صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کے دوران راجہ نثار احمد خان نے کہا کہ کشمیر کونسل نے اپنی حدود سے تجاوز کی جس کی وجہ سے ہمیں اس کے اختیارات کے حوالے سے سوچنا پڑا۔

(جاری ہے)

کشمیر کونسل نے بعض معاملات میں ناجائز فائدہ اٹھایا اور آزادکشمیر سے جمع ہونے والے ٹیکسز کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر بے دریغ استعمال کیا ۔ سردار سکندر حیات خان نے اپنے دور میں ان فنڈز کا بے دریغ استعمال روکا ۔ اس سے پہلے جب ایکٹ74نافذ کیا گیا تھا تو سکندر حیات واحد وزیر تھے جنہوں نے اس وقت کہا تھا کہ کشمیر کونسل کو رابطہ پل تو قرار دیا جارہا ہے لیکن اس پر ٹریفک یک طرفہ ہوگی ، بعد کے حالات نے یہ بات عملاً ثابت کی۔

انہوں نے کہاکہ تیرہویں آئینی ترمیم کے بعد آزادکشمیر میں سیاسی اور معاشی استحکام آئے گا۔ ترقی کی نئی منازل طے ہونگی۔ آزادکشمیر میں آئینی اصلاحات کا عمل طویل عرصہ سے زیر غور تھا ۔ پیپلز پارٹی کے دور میں جب یوسف رضا گیلانی بحیثیت وزیر اعظم جب مظفرآباد آئے تھے تو اس وقت کی پیپلز پارٹی کی مقامی حکومت اور جملہ سیاسی قیادت نے تسلیم کیا تھا کہ آزادکشمیر حکومت کے اختیارات میں اضافہ ہونا چاہیے ۔

ا س مقصد کیلئے ایک کمیٹی بھی بنی تھی مگر پیپلز پارٹی کی منافقت تھی کہ یوسف رضا گیلانی کے ساتھ الگ میٹنگ میں انہیں آزاد کشمیر میں آئینی ترامیم سے منع کیا گیا۔ بعد ازاں چوہدری لطیف اکبر کی سربراہی میں آئینی اصلاحات کمیٹی قائم ہوئی ان کی بیماری کی وجہ سے مطلوب انقلابی کو سربراہی سونپی گئی جس نے تمام مکاتب فکر سے مل کر متفقہ آئینی مسودہ تیار کیا مگر تمام تر سازگار سیاسی حالات کے باوجود پیپلز پارٹی نے انحراف کیا ۔

ہم مسلم لیگ ن کی حکومت اور میاں محمد نواز شریف کے شکرگزار ہیں انہوں نے انتخابی وعدوں پر عمل کیا اور آزادکشمیر میں ایک باوقار اور با اختیار حکومت دی ۔ تیرہویں آئینی ترمیم کے بعد ہمارے لیے مشکلات ضرور ہونگی کیونکہ اب ہمیں اپنے وسائل کے اندر رہ کر چلناہے ۔ بجٹ خسارہ نہیں ملے گا، ذرائع آمدن بڑھانے کیلئے عملی اقدامات کرنا ہونگے ، منصوبہ بندی کے تحت ترقیاتی فنڈز خرچ کرنے ضرورت ہے ۔

اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے اچھے انداز میں مسائل حل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ ملٹری ڈیمو کریسی کی دعویدار مسلم کانفرنس کی جانب سے یہ واویلا کے اختیارت چلے گئے ہیں وہ جواب تو دیں کہ وہ کونسے اختیارات تھے جو چلے گئے ہیں اپنے دور حکومت میں انہوں نے اختیارات استعمال کیے سب کو علم ہے۔ ہم تیرہویں آئینی ترمیم کے بعد جمہوری اور اقتصادی نظام کو بہتربنانے کی کوشش کرینگے کیونکہ اب بہت سے معاملات براہ راست کشمیر کونسل کے بجائے وزیر اعظم پاکستان کے پاس چلے گئے ہیں جو آزادکشمیر حکومت کے ساتھ تعلقات کار کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہے ۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراراددوں کی روح کے مطابق تیرہویں ترمیم کو تربیت دیا گیا ہے ، بہتر ہوتا ملٹری ڈیموکریسی والے پہلے ترامیم کا مسودہ پڑھ لیتے ۔ ہم نے تو شریعت کورٹ ،مہاجرین کی بارہ نشستوں، اسلامی نظریاتی کونسل اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین کو آئینی تحفظ دیا ہے ۔ وہ تو چاہتے تھے کہ ایسا نہ ہو اور انہوں نے ترمیم رکوانے کی عملاً کوششیں بھی کیں مگر یہ اچھا کام اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعے یہ پائیہ تکمیل تک پہچانا تھا جس کی انہیں توفیق نہ ہوئی حالانکہ ابتداء انہوں نے ہی کی تھی ۔

یہ ان کی حسرت تھی مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں موقع نہیں دیا۔ اب وہ منہ چھپاتے پھررہے ہیں اور عوام کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔ تیرہویں آئینی ترمیم کے مثبت اثرات جلد سامنے آنا شروع ہونگے ۔ انہوں نے کہاکہ پالیسی کی آڑ میں عمل نہ کرنا پیپلز پارٹی کا وطیررہا ہے ۔قومی تعلمی پالیسی کے نام پر انہوں نے تعلیمی پیکج دیا اور پالیسی کا بیڑا غرق کیا اسی دوران این ٹی ایس کے نفاذ کا اعلان کر کے اس پر عمل نہ کیا۔

ان کے دور میں پبلک سروس کمیشن مفلوج ادارہ تھا جس کا ڈیڈلاک موجودہ پبلک سروس کمیشن نے پورا کیا ۔16,16گھنٹیموجودہ پبلک سروس کمیشن کام کررہاہے جس کی وجہ سے 2005سے 2016تک کے زیرالتوا معاملات یکسو ہوگئے ہیں ۔ آزادکشمیر میں اس وقت این ٹی ایس کے ذریعے بھرتیوں کا نظام شفاف بنادیا گیا ہے ، محکمہ برقیات میں اصلاحات کا عمل جاری ہے ، ایم ایس آر آئی پراجیکٹ کے تحت پیپلز پارٹی کے دور میں 2011کے بعد ڈیڑھ ارب روپے ضائع کیے گئے ، موجودہ حکومت نے وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدرخان کے ویژن کے مطابق تمام شعبہ جات میں بہتری کیلئے عملی اقدامات اٹھائے ہیں ، محکمہ برقیات کے تحت ہر حلقہ انتخاب میں دو سب ڈویژن بنائے جارہے ہیں ،کنسٹریکشن کا شعبہ ختم کر کے اس اُپریشن ڈویژن میں ضم کیا گیا ہے تاکہ تمام نظام کو باہم مربوط کر کے مثبت اثرات عوام تک پہچانے کی کوشش جاری ہے ۔

انہوںنے کہاکہ تیرہویں آئینی ترمیم صبر آزما اور طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے ، آزادکشمیر کی سیاسی قیادت کو اس سلسلہ میں مخالفت برائے مخالفت اور پوائنٹ سکورنگ کے بجائے اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے ، غلطیوں کی نشاندہی کریں ہم ازالہ کیلئے تیار ہیں ، اچھے کام کی تعریف ہونی چاہیے ، تیرہویں آئینی ترمیم وفاقی حکومت کی اجازت سے منظوری کے مرحلہ تک پہنچی ۔

کشمیر کونسل کے پاس اب مالیاتی اور انتظامی اختیارات نہیں رہے ہیں آزادکشمیرمیں تعمیر و ترقی کشمیر کونسل کا مینڈیٹ ہی نہیں تھا صرف پاکستان کو آزادکشمیر سے ملانے والی سڑکوں کی تعمیر کا ذکر ہے یہ واضع نہیں کہ یہ سڑکیں کون بنائیگا۔ اب محاصل کا اکائونٹ ایک ہوجانے کے بعد مسائل ختم ہوجائیں گے ۔ آئین 1974کے تحت آرٹیکل 31،33اور56میں کوئی رد بدل نہیںہوا میاں محمد نواز شریف نے کشمیر کونسل کے اجلاس مظفرآباد میں منعقد کیے اس سے پہلے کونسل کے بجٹ اجلاس بھی کئی کئی ماہ تاخیر کا شکار ہوتے تھے۔

تیرہویں آئینی ترمیم شاہد خاقان عباسی سابق وزیر اعظم پاکستان کی وجہ سے ممکن ہوئی اور یہ کام آخری لمحات میں جاتے جاتے انہوں نے کیا جس پر ہم ان کے شکرگزار ہیں ۔ راجہ نثار احمد خان نے کہاکہ تیرہویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرنے والے ایکٹ74سے پہلے حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات کار کیلئے کونسل قانون نافذ تھا ایکٹ70کے تحت صدارتی نظام زیادہ با اختیار تھا۔

1970سی74تک مجاہد اول صدر آزادکشمیر تھے ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اب معاملات چیئرمین کشمیر کونسل کے بجائے وزیر اعظم پاکستان دیکھیں گے جبکہ وزارت امور کشمیر پہلے بھی تھی اب بھی موجود ہے ۔ کونسل کے منتخب ممبران آزادکشمیر حکومت کو بھی تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے مشاورت فراہم کرسکیں گے ۔ ایک اور سوال پر راجہ نثار احمد خان نے کہاکہ اس وقت سیاسی نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور سیاسی نظام سیاسی جماعتوں کی مضبوطی سے ہی صحیح مستحکم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس کے پاس سیاست کیلئے کوئی ایشو نہیں بچا اس لیے تیرہویں آئینی کے خلاف منفی پراپیگنڈا کر کے ابہام پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن میں انہیں بری طرح ناکامی کا سامنا ہے آزادکشمیر کے عوام تمام حقیقت سے آگاہ ہیں ، جس معاملے کی ابتدا ہی انہوں نے کی تھی اس کی مخالفت انہیں زیب نہیں دیتی۔