پاکستان اور نائجیریا کے درمیان گہرے روابط و تعلقات استوار ہیں،

یہ تعلقات تجارت اور باہمی تعاون پر محیط ہیں، دونوں ممالک مشترکہ مفادات کے مواقع تلاش کرتے ہوئے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کر سکتے ہیں صدر آزاد کشمیرسردار مسعود خان بائجیریا کے وفد سے ملاقات میں اظہار خیال

بدھ 18 جولائی 2018 18:16

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 جولائی2018ء) آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور نائجیریا کے درمیان گہرے روابط و تعلقات استوار ہیں، یہ تعلقات تجارت اور باہمی تعاون پر محیط ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قائمقام ڈائریکٹر جنرل نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اینڈ سٹرٹیجک سٹڈیز نائجیریا مسٹر جوناتھن میلا جما کی قیادت میں سات رکنی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا جس نے بدھ کو ایوان صدر جموں و کشمیر ہائوس اسلام آباد میں ان سے ملاقات کی۔

وفد میں مسٹر اوکیکہ جان چنکا رپورٹر اتھارٹی نیوز پیپر لمیٹڈ، مسٹر اوپرم کنگلسلے خارجہ امور کے نمائندہ ، مسز سادیت انواباء براڈ کاسٹ صحافی افریقین انسڈینڈنٹ ٹیلی ویژن، مسٹر میئر ڈان علی چیف ایگزیکٹیو آفیسر میڈیا ٹرسٹ لمیٹڈ اور مسز سسلیلہ امارہ گہا ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج شامل تھے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر وفد سے گفتگو کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے انہیں پاکستان آمد پر خوش آمدید کہا اور بتایا کہ پاکستان و نائجیریا دونوں معاشی اور انسانی ترقی کی خواہاں ہیں صدر نے کہا کہ پاکستان پاک چین اقتصادی راہداری کی بدولت اور اپنی ابھرتی ہوئی معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔

صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ دونوں ممالک مشترکہ مفادات کے مواقع تلاش کرتے ہوئے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کر سکتے ہیں۔ صدر نے اس موقع پر وفد کو بتایا کہ ان کی حکومت کی ترجیحات میں جموں وکشمیر کے لوگوں کے حق خودارادیت کے حصول کیلئے کاوشیں کرنا، قانون، انصاف، شفافیت، احتساب اور گڈ گورننس کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کی توجہ کا مرکز اقتصادی اور انسانی ترقی بالخصوص روڈ انفراسٹرکچر، صنعت، زراعت، توانائی کی پیدوار، تعلیم اور طبی سہولیات فراہم کرنا ہیں۔

صدر آزاد کشمیر نے وفد کو مزید بتایا کہ آزادکشمیر باضابطہ طور پر سی پیک منصوبے کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کے دو منصوبے، میرپور میں صنعتی زون کا قیام اور میرپور تا مانسہرہ ایکسپریس وے پر منصوبہ بندی اور عملدرآمد کے مختلف مراحل میں ہیں۔ انہوںنے کہا کہ آزاد کشمیر اپنے حجم میں چھوٹا ہونے کے باوجود پانچ یونیورسٹیاں، تین میڈیکل کالج اور پورے پاکستان سے زیادہ شرح خواندگی رکھتا ہے اور آزادکشمیر میں پورے پاکستان کی نسبت کم ترین جرائم کی شرح ہے۔

صدر نے وفد کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بتاتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بھائی اور بہنیں ہندوستانی افواج کے ہاتھوں انتہائی ظلم وبربت کا شکار ہیں اور وہاں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، کشمیر کے لوگوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے انہیں غیر قانونی طور پر پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔ خواتین کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور لوگوں سے پر امن احتجاج کا حق چھین لیا گیا ہے، پیلٹ گن کے استعمال سے نوجوانوں اور بچوں کو بینائی سے محروم کیا جا رہا ہے۔

صدر آزاد کشمیر نے وفد کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں ایک جامع رپورٹ تیار کی ہے ۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ کالے قوانین جیسے کہ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ بھارتی افواج کو مقبوضہ کشمیر میں معصوم کشمیریوں کو قتل کرنے اور انہیں غیر قانونی طور پابند سلاسل کرنے کے اختیارات دیتے ہیں اور ایسا کرنے میں ان کے خلاف قانون کے تحت کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی۔

صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا جمہوری انداز میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے تحت پرامن حل چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جبکہ دوسری طرف ہندوستان اس مسئلے کو طاقت کے بے جا استعمال اور ریاستی دہشت گردی کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہندوستان کبھی بھی کشمیریوں کی اس پرامن جدوجہد آزادی کو طاقت کے بل پر کچل نہیں سکتا ۔

وفد کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو کشمیری لوگوں کے حق میں اپنی آواز کو بلند کرنا چاہئے اور بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ کشمیر کے لوگ ایک آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں۔ سردار مسعود خان نے کہا کہ ہندوستان کا یہ موقف کہ کشمیر ایک دو طرفہ مسئلہ ہے سر اسر غلط ہے۔

انہوںنے کہا کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا باضابطہ حصہ ہے اور اس مسئلے کا کوئی بھی سیاسی حل کشمیر کے لوگوں کو باہر رکھ کر ممکن نہیں ہے۔ صدر آزاد کشمیر کو مسٹر جوناتھن (جو وفد کی قیادت کر رہے تھی) بتایا کہ ان کے موجودہ دورے میں آزادکشمیر جانا اور وہاں کے حکومتی زعما سے ملاقات شامل ہے تاکہ وہ آزادکشمیر حکومت کی ورکنگ کو سمجھ سکیں۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ ان کا پاکستان اور آزاد کشمیر کا دورہ انہیں پاکستان اور آزاد کشمیر کے بارے میں سمجھنے میں ممدو معاون ثابت ہو گا۔