مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے کنٹرول لائن کو بھارت اور پاکستان کے مابین مستقل سرحدتسلیم کرنے کا آپشن کبھی زیر غور نہیں رہا، کشمیری عوام ریاست جموںو کشمیر کو ایک اکائی سمجھتے ہیں ، تقسیم کشمیر اُن قربانیوں کی نفی ہوگی جو ریاست جموںو کشمیر کے عوام گذشتہ ستر سال سے دیتے چلے آرہے ہیں ،جموںو کشمیر کے عوام کی جدوجہد حق خودارادیت کے حصول کے لئے ہے

صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان کا ایک میگزین کو انٹرویو

بدھ 14 نومبر 2018 23:55

مظفر آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 نومبر2018ء) صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے کنٹرول لائن کو بھارت اور پاکستان کے مابین مستقل سرحدتسلیم کرنے کا آپشن کبھی زیر غور نہیں رہا۔ کشمیری عوام ریاست جموںو کشمیر کو ایک اکائی سمجھتے ہیں اور تقسیم کشمیر اُن قربانیوں کی نفی ہوگی جو ریاست جموںو کشمیر کے عوام گذشتہ ستر سال سے دیتے چلے آرہے ہیں ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گلوبل ویلیج سپیس میگزین کی ایڈیٹر نجمہ منہاس کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ جموںو کشمیر کے عوام کی جدوجہد حق خودارادیت کے حصول کے لئے ہے اور وہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھارتی غلامی سے نجات حاصل کر نے کے لئے پیش کر رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے ساتھ محبت اور یکجہتی کی ایک نئی لہر نمودار ہوئی جس کا اظہار مقبوضہ وادی کے گلی کوچوں اور سٹرکوں پر ہزاروں اور لاکھوں لوگ اُس وقت کرتے ہیں جب وہ شہیدوں کے جسد خاکی کو کندھا دینے یا اُن کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے نکلتے ہیں تو اُن کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ "ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہی"یہ محض نعرہ نہیں بلکہ اہل پاکستان کے لئے ایک پیغام ہے کہ اپنے جسم کے حصے کو اغیار اور ظالم کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور اس سلسلے میں سفارتی اور سیاسی مہم کو تیز تر کریں ۔

انہوں نے کہا کہ کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنا مسئلہ کشمیر کا حل نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بھارت مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر گفت و شنید کا آغاز نہیں کرتا اسے کوئی یکطرفہ رعایت نہیں دی جاسکتی ۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے جموں وکشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کے لئے پیش کئے گئے چار نکاتی فارمولے پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ غالباً یہ فارمولہ پاکستان ، بھارت اور ریاست جموں وکشمیر کے عوام کے مابین اعتماد سازی کے لئے "جہاں ہے جیسا ہی"کی پوزیشن قائم رکھنے کی کوشش تھی۔

انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کئے بغیر دونوں جانب کے کشمیریوں کو آزادانہ طور پر ریاست کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں آنے جانے کی آزادی ایک عارضی ریلیف تو ہو سکتا ہے لیکن یہ مسئلہ کشمیر کا مستقل اور پائیدار حل نہیں ہے ۔