گرفتاری سے خوفزدہ نہیں ،کسی وزیر کی کارکردگی خراب ہوئی تو کابینہ سے نکال دیں گے، وزیر اعلیٰ سندھ

کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے اختیارات پرانی کے ایم سی سے کسی بھی طرح کم نہیں ، مزید اختیارات کیلئے بیٹھ کر بات ہوسکتی ہے ،مراد علی شاہ

ہفتہ 10 اگست 2019 14:25

گرفتاری سے خوفزدہ نہیں ،کسی وزیر کی کارکردگی خراب ہوئی تو کابینہ سے ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 اگست2019ء) وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ گرفتاری سے خوفزدہ نہیں ہوں، کسی وزیر کی کارکردگی خراب ہوئی تو کابینہ سے نکال دیں گے، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے اختیارات پرانی کے ایم سی سے کسی بھی طرح کم نہیں ، مزید اختیارات کیلئے بیٹھ کر بات ہوسکتی ہے ۔ایک انٹرویومیں پرویز مشرف کے دور میں جو صوبائی حکومت کی غیر موجودگی میں قانون بنایا گیا، پیپلزپارٹی نے اس کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ اختیارات صوبائی حکومت کو واپس دئیے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی نے 2013 میں نیا قانون لایا جس کے بعد تمام بلدیاتی اداروں کے پاس ان کے اختیارات موجود ہیں۔ مسئلہ یہ ہوا تھا کہ انہیں امن وامان، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کردار دے دیا گیا تھا جو واپس لیا گیا تو انہوں نے یہ کہا کہ ہمارے اختیارات واپس لے لیے ہیں۔

(جاری ہے)

مرادعلی شاہ نے کہا کہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے اختیارات پرانی کے ایم سی سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔

مزید اختیارات کے لیے بیٹھ کر بات چیت ہوسکتی ہے لیکن جو اختیارات ہیں ان کے مطابق تو کام کریں۔انہوںنے کہاکہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم میں جس قانون کے حوالے سے جو بات چیت ہوئی تھی یہ ویسا ہی ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی میونسپل کارپوزیشن خود صرف 7 سے 8 فیصد ریونیو اکٹھا کرپاتی ہے جبکہ باقی نوے فیصدصوبائی حکومت سے گرانٹس ملتی ہیں۔

پراپرٹی ٹیکس کا اختیار بھی ان ہی کے پاس ہے وہ حکومت صرف اکٹھا کے دیتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مئیر کراچی سازشوں میں گھیر گئے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں انہیں صوبائی حکومت کے بجائے سب کچھ وفاقی حکومت سے ملنا ہے۔ اس سے ان کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ یہ ادارے مالی طورپر مضبوط ہوں،ہمیں اختیارات دینا چاہتے ہیں لیکن یہ بھی چاہتے ہیں ان اداروں کی صلاحیت بھی ہو۔

انہوں نے کہا کہ کراچی سے انسیت ہے، شاہراہ فیصل، طارق روڈ اور یونیورسٹی روڈ پر پہلے بھٹو دور میں کام ہوا تھا اور پھر ہم نے اب کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت دس بارہ ارب روپے کے منصوبوں پر کام کررہی ہے، ہم تو اس کی مخالفت کے بجائے کہتے ہیں کہ جو 162 ارب روپے کا وعدہ کیاہے وہ پورا کریں۔وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ یلو لائن کا منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت شروع کیا لیکن وہ چینی کمپنی پورا کرنے میں ناکام رہی، اب یہ ورلڈ بینک کے ساتھ کر رہے ہیں جس کے بورڈ نے اس کی منظوری دے دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گرین لائن سے متعلق نوازشریف نے کہا کہ یہ وفاقی حکومت کرنا چاہتی ہے، اس پر کام ہورہا ہے لیکن یہ چار سالوں میں مکمل نہیں ہوسکی ہے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ سرکولرریلوے وفاقی حکومت کا منصوبہ ہے، ہماری حکومت نے وفاقی حکومت کو لکھا کہ یہ منصوبے ہمیں مکمل کرنے دیں اور اسے بھی لاہور کی طرح سی پیک کا حصہ بنا دیں لیکن ایسا نہیں ہوسکا ہے۔

اس میں تاخیر کی وجہ سندھ حکومت نہیں ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ ٹرانسپورٹ، پانی اور کوڑا اکٹھا کرنا کراچی شہر کے بڑے مسائل ہیں، اس حوالے سے حکمت عملی موجود ہے لیکن وسائل اور صلاحیت کی کمی ہے۔سید مراد علی شاہ نے کہا کہ عدالت میں کیس شروع ہونے سے جے آئی ٹی رپورٹ مکمل ہونے تک نہ کبھی بلایا گیا اور نہ ہی کوئی سوال پوچھا گیا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ابتدائی طور پر بلاول بھٹو اور میرا نام جے آئی ٹی سے نکالنے کا کہا لیکن یہ بات تحریری فیصلے میں شامل نہیں تھی۔

مراد علی شاہ نے کہاکہ احتساب کے نعروں کی وجہ سے خوف پیدا ہوگیا ہے جس سے پورا پاکستان رکا ہوا ہے، کوئی فیصلے کرنے کی ہمت نہیں کررہا ہے، نظام مفلوج ہوچکا ہے، یہ وزیراعظم کے سامنے بھی کہا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ وزیراعظم سے اکیلے میں آخری ملاقات نومبر میں ہوئی ہے، ایک مشترکہ اجلاس میں بلایا گیا ہے اس کے علاوہ کسی اجلاس میں بلانا مناسب نہیں سمجھا گیا۔

مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہر مہینے میں ہونا چاہیے لیکن نومبر کے بعد کوئی اجلاس نہیں ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ سے پہلے اجلاس میں کچھ تجاویز دیں تو کہا گیا کہ آپ سب سے زیادہ بولتے ہیں لیکن اس رویے سے ایک صوبہ اور پورا ملک متاثر ہورہا ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کچھ بات کرلیتے ہیں جبکہ پنجاب اورخیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کی نمائندگی بھی کرتا ہوں کہ انہیں بولنے کی اجازت نہیں ہے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ عوام کے مسائل حل کررہے ہیں اس لیے عوام ووٹ دیتے ہیں، 2018 میں تاریخ میں پیپلزپارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں جتیں اور ووٹ لیے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ ہیں، ہمارے پاس ایک لاکھ 30 ہزار اساتذہ ہیں لیکن پڑھانے کے قابل کتنے ہیں اس کا ہمیں نہیں پتہ، کسی کو نکالیں تو وہ عدالتوں سے اسٹے لے لیتا ہے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ وزارتوں میں تبدیلی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت کی مشاورت سے فیصلہ کیا ہے کہ کون کہاں زیادہ بہتر کام کرسکتا ہے،خراب کارکردگی پر کسی بھی وزیرکونکال دیں گے۔النہوںنے کہاکہ ملک بحران میں ہے لیکن ہم تنہا ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم جہاں جاتے ہیں اپنی برائی کرکے آتے ہیں جس سے دنیا میں ہماری ساکھ ختم ہوگئی ہے۔