لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 مارچ2020ء) پاکستان
مسلم لیگ (ن) کے صدر،
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف محمد
شہباز شریف نے
کورونا وائرس کے معاملے پر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کرنے اور قومی ٹاسک فورس تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ
کورونا کی تشخیص کیلئے مفت ٹیسٹ کی سہولت کی فراہمی کیلئے وسائل مہیا کئے جائیں ،
�اک ڈائون کا فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا، تفتان بارڈر کے معاملے پر نااہلی سامنے آئی ہے، شرح سود میں فی الفور 3سی4فیصد کمی کی جائے اوراس سے تقریباً80ارب روپے میسر آ سکتے ہیں جنہیں عوام پر خرچ کیا جائے،
پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر70روپے کمی کی جائے جس سے
مہنگائی بھی کم ہو گی ،
کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے تمام مشینری اور آلات بذریعہ ائیر کارگومنگوائے جائیں ، ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکس کی تنخواہوں میں دو گنا اضافہ کیا جائے ،مشکل کی اس گھڑ ی میں حکومت کے شانہ بشانہ ہیں
،مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ڈاکٹرز، نرسز او رپیرا میڈیکس کو 10ہزار حفاظتی کٹس مہیا کی جائیں گی ، میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے ،اس وقت پوری
دنیا میڈیا کے کردار کو سراہا رہی ہے ، حکومت آگاہی مہم کے لئے بڑا جامع پیکج لانچ کرے ، حکومت
کورونا سے نمٹنے کے لئے میڈیا کو قریب لائے اور گلے سے لگائے ،خیر سگالی کے جذبے سے میر شکیل الرحمان کی ضمانت کرائیں اس سے میڈیا میں حکومت کا اچھا تاثر جائے گا اور
کورونا کے خلاف مہم کامیابی سے آگے بڑھے گی۔
(جاری ہے)
ان خیالات کا اظہارانہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ
فیس بک پر پریس کانفرنس میں کیا ۔ محمد
شہباز شریف نے کہا کہ
کورونا کی وبا ء میں شدت آنے کے بعد
نواز شریف نے واپسی کا کہا،
نواز شریف نے پیغام دیا وہ
پاکستان کیلئے دعا گو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر سیاست کو درمیان میں لانا گنا ہ ہوگا،ہمیں ملی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کردار ادا کرنا ہوگا، میں سمجھتا ہوں کہ صرف میں نے نہیں بلکہ تمام سیاسی اکابرین نے مطالبہ کیا کہ ہمیں لاک ڈائون کر جانا چاہیے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور تعطل کا شکار ہوا ،بہر کیف دیر آید درست آید لاک ڈائون ہوا اور
فوج کی مدد طلب کر کے اس معاملے کو طے کیا گیا۔
بد قسمتی سے ہماری معیشت بہت کمزور ہے اور خاصی کمزور ہے اس کے ساتھ معاشرے میں مختلف وجوہات کی بناء پر تقسیم بھی پائی جاتی ہے اور ہمیں اس کے ساتھ
کورونا وائرس کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے ۔ پاکستانیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس چیلنج کو موقع میں تبدیل کردیں اور اس موقع پر ایک قوم بن جائیں ، حقیقی طریقے سے اس چیلنج کو قبول کریں ،ذاتی انا ،پسند اور نا پسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اوپر ابھریں او رایک قوم کی طرح متحد ہو جائیں اور آگے بڑھیں او راس چیلنج کا بھرپو رمقابلہ کریں ،مجھے یقین ہے کہ ہم تمام نا مساعد حالات کے باوجود اس چیلنج کا بھرپو رمقابلہ کریں گے اور ہم اس سے باہر نکل کر آئیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات اس بات کا بھی تقاضا کرتے ہیں کہ ہم سیاست کو درمیان میں لائے بغیر کسی سیاسی آمیزشن کے بغیر صاف بات کریں ،جہاں حکومت کے اچھے اقدامات ہیں وہاں ان کی تعریف کرنا ہو گی اور کمزوریوں کو مثبت انداز میں سامنے لائیں ۔ اس حوالے سے اس بات کو ذہن میں رکھ کر کہنا چاہوں گا کاش تفتان کے معاملہ نہ ہوتا ، تفتان کے حوالے سے شدید غفلت اور بڑی غلطی سامنے آئی ہے ، وہاں بر ق رفتاری اور سنجیدگی سے انتظامات کرنے کی ضرورت تھی ، ٹیسٹنگ میکنزم ،
قرنطینہ کا پوروٹول ،آئیسولیشن سنٹرز بنے ہونے چاہیے تھے لیکن وہاں پر لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا گیا اور زائرین کے ساتھ ظلم او رزیادتی ہوئی ،اگر یہ اقدامات کئے جاتے تو
پاکستان کے اندر جو وائرس کا
حملہ ہوا ہے شاید اس کی شدت اتنی نہ ہوتی ، بہر کیف ایسا ہوا ہے لیکن اب ہمیں آگے بڑھنا ہے اور اس معاملے کو حل کرنا ہے ۔
مذکورہ بیماری کی کوئی ویکسین سامنے نہیں آئی ۔ ایک ہی
علاج ہے کہ جو بھی حفاظتی اقدامات ہیں ان پر عمل پیرا ہوا جائے او ران پر ممکنہ حد تک عمل کرنا ہوگا اور اس کے لئے میں اپنے
پاکستان بھر میں موجود ساتھیوں اورورکرز سے کہوں گا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے ادروں کے ساتھ بھرپور تعاون کریں جو بھی ہدایات دی جائیں خود بھی عمل کریں اور علاقے کے لوگوںں کو اس کی بھرپور ترغیب دیں ۔
انہوں نے کہا کہ میں وزیر اعظم سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ فی الفور مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کریں او رچاروں وزرائے اعلیٰ کے کے ساتھ بھرپور شراکت داری کریں ۔ان صوبوں میں جہاں
پی ٹی آئی کی حکومت نہیںہے وہاں اقدامات کئے جائیں، نیشنل ٹاسک فورس تشکیل دیں اورتمام سیاسی جماعتوں کو اس میں نمائندگی دیں ۔ 2016ء میں جب سانحہ
اے پی ایس ہوا تھا تو اس وقت کے وزیر اعظم
نواز شریف نے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوںاور اداروں کو ایک چھت کے نیچے اکٹھا کیا تھا اور اس یکجہتی کی آواز پوریی
دنیا ین سنی تھی ۔
ملک میں جن آلات کی کمی ہے ان کو فی الفو رمنگوایا جائے ،اضافی وینٹی لیٹرز وقت کی ضرورت ہیں ، ملک میں جہاز کھڑے ہیں ان کو ان ممالک بھجوایا جائے جہاں جہاں سے آلات مل سکتے ہیں ۔ ہم نے
ڈینگی کی وباء میں یہ کامیابی سے کیا ہے اور اب بھی تمام مشینری اور آلات جنگی بنیادوں پر بیرون ممالک سے منگوائے جائیں ، ڈاکٹرز ، نرسز اور پیرا میڈیکس کو حفاظتی کٹس مہیا کی جائیں۔
انہوں نے اعلان کیا کہ
مسلم لیگ (ن) کی طرف سے 10حفاظتی کٹس ڈاکٹرز، نرسز اور پیر امیڈیکس کو جلد مہیا کی جائیں گی ۔ عام ہسپتالوں میں علیحدہ
قرنطینہ بنائے جائیں تاکہ خدانخواستہ کوئی نیا
حادثہ نہ ہو جائے اوریہ بہت اہم ہے
۔شہباز شریف نے کہا کہ عام آدمی کو کوونا کے ٹیسٹ کی مفت سہولت دی جائے ،
غریب ،دیہاڑی کہاں سے 7ہزار روپے کے ٹیسٹ کرائے گا کیونکہ اس کی جیب پہلے ہی خالی ہو چکی ہے ، حکومت ان طبقات کی مائی باپ بن کر ان کے سروں پر ہاتھ رکھے ، اس کے لئے حکومت جہاں سے چاہے وسائل اکٹھے کرے اور ان
غریب اور ضرورتمند لوگوں کے قدموں میں نچھاو ر کرے ۔
اگر ہم ناکام ہو گئے تو یہ
قائد اعظم کا
پاکستان نہیں اور کوئی او رپاکستان ہوگا ، امید ہے کہ حکومت تمام وسائل بروئے
کار لائے گی ، لاک ڈائون کی وجہ سے لوگوں کو فوری طور پر گھروں میں خوراک او رادویات پہنچانے کے انتظامات کئے جائیں، خاص طو رپر ان لوگوں کی مدد کی جائے جن کے پاس وسائل نہیں ہیں ، حکومت ان کے لئے پلان مرتب کرے اوراسے فی الفور نافذ کیا جائے ۔
میری تجویز ہے کہ حکومت فوری طو رپر پالیسی ریٹ میں تین سے چار فیصد کمی کرے ،فوری ڈیٹھ سروسنگ سے 80ارب روپے کی بچت ہو گی اور اسے مفت ٹیسٹوں کی سہولت ، مشینری او رآلات کی
درآمد پر خرچ کیا جائے،اگر
آئی ایم ایف اس میں رکاوٹ بنتی ہے تو اسے خدا حافظ کہہ دیا جائے ، کیونکہ اس وقت عوام کی جان کا مسئلہ ہے اورایک ایک جان بچانی ہو گی ،اس سے چھوٹا تاجر اور چھوٹا
کاروبار بھی چلے گا ۔
پوری
دنیا میں اس وقت معیشت کو چلانے کے لئے کھربوں ڈالرز دئیے گئے ہیں۔ اس وقت حکومت کے پاس جو وسائل ہیں ان کو نکال کر اورایک ایک پائی کو استعمال میں لا کر اس وائرس کو شکست فاش دینے کے لئے عوام کے قدموں میں نچھاور کرے
۔شہباز شریف نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 54لاکھ خاندان ہیں ، شرح غربت کے حوالے سے سٹینڈرد کو تبدیل کیا جائے اور موجودہ حالات میں مزید 30سی40لاکھ خاندانوں کو اس میں شامل کیا جائے ۔
شہروں میں مزدور ی کے لئے آنے والوں کو رجسٹرڈ کیا جائے اور انہیں تین ہزار روپے مہینہ وظیفہ دیا جائے ،ای او آئی بی میں بے شمار فنڈز ہیں جنہیں ہم استعمال کر سکتے ہیں ، اس وقت عالمی سطح پر
تیل کی قیمتیں کم ترین سطح پر ہیں
،تیل کی قیمت میں 70روپے فی لیٹر کمی کرنی چاہیے اور اس اقدام سے
مہنگائی بھی کم ہو گی جس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا اورحکومت کو بھی کوئی
نقصان نہیں ہوگا۔
شہباز شریف نے کہا کہ ڈاکٹرز،ماہرین ،نرسز پیرا میڈیکس دن رات کام کر رہے ہیں ان کو معاشی بوجھ سے نکال کر نجات دلائیں تاکہ وہ اپنے کام پر فوکس کریں ،اس کیلئے ان کی تنخواہوں کو فی الفور دو گنا کر دیا جائے ۔بیت المال سے 10سے 12ارب روپے خرچ کرکے مستحقین تک پہنچاسکتے ہیں ، جن گھرانوں کے
بجلی کے پانچ ہزار اور
گیس کے دو ہزار بل آتے ہیں وہ اس وقت ادائیگی کرنے کے قابل نہیں ، انکی ادائیگیوں کو معاف کیا جائے یا دوسرے آپشن کے طو رپر موخر کر دیا جائے ، کیونکہ انہی اقدامات سے
غریب بچ جائے گا کیونکہ اس کی جیب پہلے ہی خالی ہے ۔
میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے ،اس وقت پوری
دنیا میڈیا کے کردار کو سراہا رہی ہے ، میڈیا
کورونا وائرس کے خلاف مہم میں لیڈ کر رہا ہے اوراس کا کلیدی کردار ہے ، حکومت آگاہی مہم کے لئے بڑا جامع پیکج لانچ کرے ، حکومت
کورونا سے نمٹنے کے لئے میڈیا کو قریب لائے اور گلے سے لگائے اوران سے کام لیں ،خیر سگالی کے جذبے سے میر شکیل الرحمان کی ضمانت کرائیں اس سے میڈیا میں حکومت کا اچھا تاثر جائے گا اور
کورونا کے خلاف مہم کامیابی سے آگے بڑھے گی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اپوزیشن کی سیاسی قیادت سے مشورہ کیا ہے اور اس کا ایک ہی مقصد تھاکہ
اے پی سی کریں او رمثبت انداز میں حکومت کو مشورے دیں ، حکومت کے جو اچھے کام ہیں ان کی تعریف کریں اور جہاں پر کمزہوری ہے اسے مثبت انداز میں سامنے لائیں تاکہ سمت کو درست کیا جاسکے۔ آج بدھ کے روز ویڈیو لنک کے ذریعے تمام اراکین
اسمبلی اورسینیٹرز کی میٹنگ بلائی ہے او رانہیں ہدایات دی جائیں گی کہ وہ حفاظتی تدابیر اپناتے ہوئے امدادی کاموں میں بھرپو رحصہ لیں ۔
انہوںنے کہا کہ مجھے اور آپ کو حالات کی سنگینی کا ادراک ہے اور انشا اللہ ہم بحیثیت قوم اس بحران سے کامیابی سے نکلیں گے،اس قوم کے اندر بہادری جرات ،شجاعت او رکمال دکھانے کی کمی نہیں،ماضی میں ہم نے بڑے بڑے زلزلوں اور طوفانوں کا مقابلہ کیا ہے او رسر خرو ہوئے ہیں ، اسی طرح ہم اس وائرس سے بھی باہر نکلیں گے۔ پوری قوم اور خصوصاًمخیر حضرات سے اپیل ہے کہ آپ آگے بڑھیں اور دکھی انسانیت کا ہاتھ تھامیں ، سفید پوش طبقہ جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اس کی مدد کریں ،مجھے امید ہے کہ ہم اس مشکل میں اتحاد کی بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے۔ ہمیں اس وقت سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر سوچنا ہوگا، ہم حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیںاور قدم سے قدم ملا کر چلیں گے۔