پاکستان کے عوام اور قومی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں سیاسی مقاصد سے بالاتر ہو کر آگے بڑھنا ہے

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس سے خطاب

بدھ 25 مارچ 2020 23:30

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 مارچ2020ء) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام اور قومی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں سیاسی مقاصد سے بالاتر ہو کر آگے بڑھنا ہے۔ بدھ کو پارلیمنٹ میں پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ نیشنل سروس کا جذبہ ہمارے اندر ہونا چاہئے، ہم سیاسی جماعتیں ہیں، سیاست ہم کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے، سیاست کا ابھی بڑا وقت پڑا ہے، ہمیں سیاسی مقاصد سے بالا تر ہونا ہے، پاکستان کے عوام اور قومی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنا ہے۔

میں ابتدا میں ہی کہنا چاہوں گا کہ وزیراعظم کی خواہش تھی کہ اس قسم کا اجلاس منعقد ہونا چاہئے۔ سپیکر نے اپوزیشن کی ملٹی پارٹی کانفرنس سے پہلے ہی بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے رابطے کر لئے تھے اور فیصلہ ہوا تھا کہ ہم پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس بلا کر تفصیلی مشاورت کریں گے جس کیلئے آج کا دن طے ہوا۔

(جاری ہے)

اپوزیشن نے اگر ملٹی پارٹی کانفرنس کی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اس میں بہت سے ہمارے دوست اور حلیف شریک ہوئے، اس میں بھی یقیناً فائدہ ہو گا کیونکہ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کی ابھی ابتدا ہوئی ہے، ہمیں یکجا ہونا ہو گا، ہمیں کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنا ہو گا، اگر تنگ دل رہے تو اس اجلاس کا مقصد فوت ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس اجلاس کا آغاز اچھا نہیں ہوا لیکن اختتام اچھا ہو رہا ہے، یہاں تشریف فرما رہنماؤں کی قابل قدر آراء سامنے آئی ہیں، میں سندھ حکومت کی کاوشوں پر ان کا شکریہ ادا کروں گا میں ان کی محنت کا اعتراف کروں گا۔ بلوچستان حکومت نے جن مشکل حالات کا سامنا کیا میں ان کو خراج تحسین پیش کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا ہو یا پنجاب، ہر صوبے نے اپنے تعیں اس سے نمٹنے کیلئے اقدامات کئے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی آفتوں کا ہمیں سامنا رہا، وہ زلزلے ہوں یا سیلاب ہوں لیکن وہ آفتیں محدود تھیں لیکن یہ وباء لامحدود نوعیت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی براعظم کوئی خطہ اس سے محفوظ نہیں رہا اس سے نبرد آزما ہونے میں وقت لگے گا۔ میں اپوزیشن کی تنقید کا برا نہیں مناؤں گا میں اس میں سے مثبت پہلو تلاش کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ آج کے اجلاس کا مقصد پولیٹیکل انکلیوژن ہے، ہمیں دیکھنا ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے ہم اس وبا سے کیسے بچ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سعید غنی آج اس وباء سے دوچار ہیں، میں ان کی جلد صحت یابی کیلئے دعاگو ہوں اور جو بھی اس مرض کا شکار ہیں آئیں سب مل کر ان سب کی صحت یابی کیلئے دعا کریں۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے تفتان کی بات کی، کاکڑ صاحب نے انتہائی اہم بات کی کہ وباء کا 78 فیصد ایران سے پاکستان میں آیا، 17 فیصد دیگر ممالک سے آیا جبکہ 5 فیصد ملک کے اندر سے پھیلا، 78 فیصد جو ایران سے آیا اس کی وجہ قم کا اجتماع تھا جہاں بے شمار زائرین جمع تھے جو گروہوں کی صورت میں قم سے نکلے۔

تفتان تک پہنچتے ہوئے انہوں نے 1400 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا چنانچہ بہت سے زائرین ایسے ہوں گے جو تفتان پہنچنے تک اس وباء سے متاثر ہو چکے ہوں گے کیونکہ یہ خارج از امکان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران ہمارا ہمسایہ بھی ہے اور خطہ میں سب سے بڑا چیلنج ایران کو درپیش ہے معاشی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو اس وباء سے نمٹنے کیلئے مشکلات کا سامنا بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ایران سے گزارش کی کہ آپ ان زائرین کو یکلخت نہ بھیجیں تاکہ ہم مناسب انتظامات کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم نے اپنے طلباء کو چین سے کیوں نہیں بلایا کیونکہ ہم نے دیکھا کہ چین کے ہاں طبی سہولیات ہم سے زیادہ ہیں اور وقت نے ثابت کیا کہ ہمارا فیصلہ درست تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں ابھی چین سے ہو کر آیا ہوں، وہاں ویڈیو لنگ کے ذریعے ہماری پاکستانی طلباء سے ملاقات ہوئی چین کی 13 یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہمارے طلباء وہاں موجود تھے بلکہ چار ہماری بچیاں جو فیملی وے میں تھیں ان کے بچوں کی ولادت وہاں ہوئی اور الحمد للہ وہ سب کے سب صحت مند تھے۔

چین میں زیر تعلیم طلباء ہم سے یہ کہہ رہے تھے ہم کل فکرمند تھے، آج پاکستانی حکومت کے شکرگزار ہیں، کل ہمارے والدین ہمارے بارے میں متفکر تھے آج ہمیں ان کی فکر لاحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب چین اس عالمی چیلنج سے نبرد آزما تھا تو 30 ممالک نے اپنے لوگ وہاں سے نکال لئے لیکن ہم نے اپنے طلباء کو نہ نکالنے کا فیصلہ کیا، ہمارے فیصلے کو چینی قیادت نے سراہا۔

انہوں نے کہا کہ میری چین کے صدر شی اور وزیراعظم چین سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے واضح کہا کہ ہم سنتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان اور چین آئرن برادر ہیں لیکن چین پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو چین سے نہ نکال کر آپ نے ثابت کر دیا کہ واقعی پاکستان اور چین آئرن برادر ملک ہیں، آج چین آپ کے ساتھ کھڑا ہے آپ کو طبی سامان اور ہر طرح کی معاونت فراہم کرنے کیلئے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم پر اعتراض ہوا کہ ہمارے جو زائرین بلوچستان میں آئے ان کو ایئر لفٹ کیوں نہیں کیا گیا میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ انہیں ایئر لفٹ کہاں کرتی ابھی قرنطینہ سینٹرز بنائے جا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا تو اس میں تمام وزراء اعلیٰ موجود تھے وہاں یہ زیر بحث لایا گیا وہاں وسائل کی عدم دستیابی کے سبب صوبوں نے ذمہ داری لی۔

انہوں نے کہا کہ چین جانے سے پہلے ہم نے فی الفور ملتان میں قرنطینہ سینٹر بنانے کی کوشش کی اور تین ہزار لوگوں کا ہم نے کوارنٹائین سینٹر قائم کیا۔ انہوں نے کہا کہ تفتان سے 1247 زائرین کو ہم نے وہاں الگ الگ کمروں میں رکھا سندھ نے سکھر میں انتظامات کئے اسی طرح سب نے انتظامات کئے، ہمیں یہ انتظامات بتدریج کرنا پڑیں گے ہمیں قرنطینہ سینٹرز مزید بنانا پڑیں گے۔