اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل لاک ڈائون سے باہر نکلے ،کشمیر میں بھارتی فوج کی قتل و غار ت گری، تشدد ، نسل کشی اور نسلی تطہیر کو روکے ، سردار مسعود خان

بھارتی اقدامات بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف کھلی جنگ کے زمرے میں آتے ہیں جن کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نام دے کر خوش نما الفاظ کے لبادے میں نہیں چھپایا جا سکتا ہے، صدر آزاد کشمیر کا تقریب سے خطاب

بدھ 14 اکتوبر 2020 16:55

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل لاک ڈائون سے باہر نکلے ،کشمیر میں بھارتی ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 اکتوبر2020ء) صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ لاک ڈائون سے باہر نکلے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی قتل و غار ت گری، تشدد ، نسل کشی اور نسلی تطہیر کو روکے کیونکہ یہ اقدامات بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف کھلی جنگ کے زمرے میں آتے ہیں جن کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نام دے کر خوش نما الفاظ کے لبادے میں نہیں چھپایا جا سکتا ہے۔

یہ بات انہوں نے لاہور سنٹر فار پیس ریسرچ (ایل سی پی آر) کے زیر اہتمام مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال کے حوالے سے ایک آن لائن کانفرنس کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ چیئرمین ایل سی پی آر شمشاد احمد کی میزبانی میں ہونے والی اس خانفرنس سے سینیٹر شیریں رحمان، سابق سفیر ضمیر اکرم ، جموں وکشمیر انسانی حقوق کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر نذیر گیلانی اور مشال ملک نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

اپنے خطاب میں صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت نے گزشتہ سات دہائیوں میں اپنے حامی کشمیری سیاست دانوں کی مدد سے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی ریاست میں مدغم کرنے اور کشمیریوں کے دل و دماغ جیتنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا اور اس میں ناکامی کے بعد اب وہ مقبوضہ خطہ کو اپنی نو آبادی بنانے جیسے گھنائونے جرم میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکمرانوں کی طرف سے تحریض و ترغیب کی ہر پیشکش کو کشمیریوں نے ہمیشہ حقارت سے ٹھکرایا اور مقبوضہ کشمیر کا ہر چپہ چپہ آج بھی آزادی اور پاکستان کے نعروں سے گونچ رہا ہے۔

صدر آزادکشمیر نے کہا کہ کشمیریوں کے اس عزم اور بھارت بیزاری کو دیکھتے ہوئے بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت نے تنازعہ کشمیر کا ایک نیا حل سامنے لایا ہے کہ بھارت سے ہندوئوں کو لاکر کشمیر میں آباد کیا جائے اور وہاں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے ۔ ان کا منصوبہ ہے کہ وہ لاکھوں ہندوئوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دے کر انہیں متنازعہ ریاست میں آباد کریں گے اور اس مقصد کے لئے اب تک اٹھارہ لاکھ ہندوئوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دیا جا چکا ہے اور ابھی اُن کا ارادہ ہے کہ وہ پچاس سے ساٹھ لاکھ بھارتی شہریوں کو کشمیر میں آباد کر کے اعلان بالفور کی تاریخ دوہرائیں گے۔

صدر آزادکشمیر نے کہا کہ اعلان بالفور کے تحت یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر آباد کرنے میں ایک صدی لگی تھی لیکن بھارت وہی کام چند سال میں کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کے ہندئو انتہاء پسند نازی جرمنی کی طرز پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق رائے دہی سے محروم کر کے، انہیں بے دخل کر کے اور انہیں نظر بندی کیمپوں میں دھکیل کر آخر میں اُن کا مکمل خاتمہ کر کے یا ہجرت پر مجبور کر کے گزشتہ صدی کی نازی جرمنی کی یاد تازہ کرنا چاہتے ہیں۔

صدر سردار مسعود خان نے اُن وطن دشمنوں کو جو کشمیریوں کی خواہشات اور اُن کی جانوں کی قیمت پر بھارت سے امن مذاکرات یا سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کے خواہشمند ہیں بھارت کا ٹرو جن ہارس قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد و یکجتہی برقرار رکھتے ہوئے بھارت کے ظلم اور شیطانی منصوبوں کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوتوا نظریہ سے متاثر اور سامراجی ایجنڈا رکھنے والے انتہاء پسندوں کی جنگ کی خواہش کو دیکھتے ہوئے ہمیں تیاری کرنی ہو گی کیونکہ اس جنگ کا ہمارے اوپر مسلط کیا جانا اب ناگزیر نظر آتا ہے۔

بھارت کے خلاف جارحانہ سفارتی اور سیاسی مہم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ ہمیں عالمی برادری کو بتانا ہو گا کہ آر ایس ایس دنیا کی سب بڑی دہشت گرد تنظیم ہے جس کے مسلح ارکان کی تعداد ساٹھ لاکھ سے زیادہ ہے اور انہیں فوجی تربیت دے کر اور ذہنوں کو بدل کر جنگ کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ تنازعہ کشمیر کے حل میں اقوام متحدہ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ نے اس تنازعہ کے حل سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے ۔

اگرچہ گزشتہ سال پانچ اگست کے بعد عالمی میڈیا، دنیا کے مختلف ممالک کی پارلیمانز اور سول سوسائٹی نے بھارتی اقدامات کی مذمت کی اور خود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنے تین غیر رسمی اجلاس بلا کر اس تنازعہ پر غور کیا لیکن سلامتی کونسل کے ان تین اجلاسوں کے بعد کوئی قرار داد منظور کی نہ ہی صدارتی بیان جاری کیا گیا اور اس طرح دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کی وجہ سے بھارت کے خلاف بولنے سے گریزاں ہیں۔

صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ ہمیں سیاسی و سفارتی کوششوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیونکہ بھارت ایف اے ٹی ایف، سلامتی کونسل اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی حمایت کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے لیکن سیاسی جماعتوں کو بین الاقوامی سیاسی مہم کی قیادت سونپی جائے تاکہ وہ دنیا میں دوسری سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تک رسائی حاصل کر کے کشمیر پر اُن کی حمایت حاصل کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ویتنام کی جنگ مخالف تحریک اور جنوبی افریقہ کی نسل پرستی کے خلاف تحریک کی طرز پر کشمیریوں کی تحریک آزادی کو عالمی تحریک میں تبدیل کر بین الاقوامی سول سوسائٹی کو اپنے ساتھ ملانا ہو گا کیونکہ اقوام متحدہ کو جگانے کا یہی ایک راستہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں عالمی سطح پر سول سوسائٹی، خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں، انسانی حقوق کے اداروں اور تعلیمی ماہرین تک پہنچنا ہو گا تاکہ بھارت کے خلاف ایک قانونی کیس تیار کیا جائے کونکہ اُس نے گزشتہ سال پانچ اگست کے بعد مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جتنے اقدمات اٹھائے وہ بین الاقوامی قانون کی رو سے غیر قانونی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم یہ کیس تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو مختلف بین الاقوامی عدالتوں اور ٹریبونل کو بھیج کر بھارت کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ صدر سردار مسعود خان نے بھارت کے خلاف معاشی و اقتصادی پابندیوں کی تحریک شروع کرنے کی تجویز بھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کئی ممالک اس کے لئے مثبت جواب دینے کے لئے تیار ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس تحریک کو شروع کر کے بتدریج آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو دنیا کے اہم تعلیمی اداروں میں پڑھنے اور پڑھانے کے مواقع فراہم کریں تاکہ وہ فکری خلاء کو پُر کر کے بھارت کے جھوٹے بیانیے کو مسترد اور کشمیری کے حقیقی بیانیے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

بیرون ملک آباد کشمیریوں اور پاکستانیوں کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ ہمیں اپنی اس طاقت کو تنازعہ کشمیر کو اس کے درست تناظر میں اُجاگر کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہیے کیونکہ ایک کروڑ پاکستانی اور کشمیری مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں ایک اہم عامل کے طور پر پہلے ہی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تخفیف اصلاح اور ہتھیاروں میں کمی کے لئے کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں تک رسائی حاصل کر کے انہیں باور کروانا ہو گا کہ اگر مسئلہ کشمیر کو پرامن ذرائع سے حل نہ کیا گیا تو بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی خطہ میں جوہری جنگ کی طرف بھی جا سکتی ہے۔