دیر آید درست آید

DW ڈی ڈبلیو بدھ 24 مارچ 2021 15:00

دیر آید درست آید

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مارچ 2021ء) خبروں کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ مقتدر حلقوں کے دل اچانک نہیں بدلے ہیں یہ سب طویل عرصے سے جاری بیک ڈور رابطوں کا نتیجہ ہے۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق یو اے ای نے اس سلسلے میں کردار ادا کیا اور سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ عادل الجبیر نے چند دن قبل اعتراف کیا تھا کہ سعودی عرب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

CNN کے بھارتی میڈیا ادارے News 18 کے مطابق 2018ء جب وزیراعظم نے اقتدار سنبھالا تو جنرل باجوہ نے برطانیہ کے ذریعے پاکستانی اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کارابطہ کروایا۔ جنرل باجوہ کے بیان پر ابھی تک بھارت نے کوئی سرکاری رسپانس نہیں دیا.

یوم پاکستان کے موقع پر وزیراعظم مودی کا وزیراعظم عمران خان کو خط ایک ایسے وقت میں آیا ہے، جب دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول پر نئے سرے سے جنگ بندی ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ مہینے دونوں ملکوں کے ملٹری آپریشن کے ڈائریکٹرز نے اچانک کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور اس وقت سے جنگ بندی پر مکمل طور پر عمل ہو رہا ہے۔

ویسے تو ‘ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے‘ کی بحث ہے لیکن یہ حوالہ دینا صورتحال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے، جب نواز شریف نے اس قسم کی بات کی تھی تو ان پر انتہائی ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے اور ان کی حکومت کے خاتمے کے لیے بھی اس کو بھرپور استعمال کیا گیا۔

ان کے بھارت سے ذاتی کاروباری مفادات اور مودی کا یار ہونے کے الزامات لگائے گئے اور اس پر مخالفین کی جانب سے خوب سیاست کی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر آئے روز، خبر شائع کرنے والے ڈان اخبار پر غداری کے فتوے جاری ہوتے رہے، کینٹ کے علاقوں میں اخبار کی سرکولیشن بند کروائی گئی، اخبار کے دفتر پر حملہ کیا گیا اور متعلقہ رپورٹر پرغداری کا مقدمہ بھی کیا گیا۔

اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ جب جب بھی دونوں ملکوں میں امن کی بات ہوئی ہے کوئی نہ کوئی spoiler ضرور آیا ہے۔

سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے کوششیں کی اس کا کوئی نتیجہ آنے سے پہلے ہی 2008ء میں ممبئی حملہ ہو گیا۔ پھر پی پی پی کے دور میں سب ڈی ریل ہو گیا۔ پھر نواز شریف کے دور میں تعلقات میں نرمی نظر آنے لگی مودی افغانستان کے دورے سے واپسی پر مختصر سرپرائز وزٹ پر پاکستان آئے اور نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کی، لیکن پھر پٹھان کوٹ کا واقعہ ہو گیا اور پھر سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی دیکھنے میں آئی۔

اس سب کو ایک طرف رکھتے ہوئے ماضی کو بھولنے اور پاک بھارت تعلقات کی بہتری کی باتیں ہونا اصولاً دونوں ملکوں کے امن پسند حلقوں کے لیے خوش آئند خبر ہونی چاہیے۔ لیکن کچھ سوالات بھی جنم لیتے ہیں کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اس پر قومی ڈائیلاگ کا انعقاد ہونا جو کہ حالیہ سیاسی کشیدگی میں ایک چیلنج ہو گا کو کیسے ممکن بنایا جائے گا؟ اور خود حکومتی حلقوں سے اٹھنے والی آوازیں جیسا کہ پارلیمنٹری افیئرز کے وزیر علی محمد خان کا مودی کے وزیراعظم کی صحت کے لیے نیک خواہشات کے جواب میں تلخ ردعمل، ان سب پر قابو پانا بھی اہم ہو گا تاکہ بات چیت کی راہ سرکاری طور پر ہموار ہو سکے۔

یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ محض پاکستانی آرمی چیف اور وزیراعظم کی انفرادی کوششیں ہوں گی یا ان کو اس میں اپوزیشن، قوم اور دیگر مقتدر حلقوں کا ساتھ بھی میسر آئے گا اور کیسے؟ اور سب سے بڑھ کر مسئلہ کشمیر پر اپنے موقف کو کیسے بر قرار رکھا جائے گا؟ جس کے حل پر وزیراعظم عمران خان خاص طور پر عالمی سطح پر زور دیتے آرہے ہیں۔ اس صورتحال میں یہ تمام معاملات غور طلب ہوں گے۔