ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی خریداری میں دلچسپی،بھاؤ مستحکم رہا

صوبہ سندھ میں روئی کا بھاؤ فی من 12800 تا 13000 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 5600 تا 6000 روپے رہا

ہفتہ 3 جولائی 2021 23:24

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 جولائی2021ء) مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی خریداری میں دلچسپی اور بھٹی کی رسد میں گاہے گاہے اضافہ ہونے کے سبب روئی کے کاروباری حجم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مقامی و بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی کا بھاؤ مستحکم رہا۔پہلی جولائی سے روئی کی نئی سیزن کا آغاز ہونے کی وجہ سے کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے نئی فصل کی روئی کے سودے کا اندراج شروع کر دیا ہے اور نئی فصل کا اسپاٹ ریٹ بھی جاری کرنا شروع کر دیا ہے ۔

گو کہ نئی سیزن کی روئی کی آمد جون سے شروع ہوچکی ہے اور تاحال شاید پہلی مرتبہ جون مہینے میں تقریبا ایک لاکھ گانٹھیں تیار ہو چکی تھی PCGA ان گانٹھوں کو نئی فصل کے طور پر اپنے جاری ہونے والی رپورٹ میں شمار کرے گا۔

(جاری ہے)

فی الحال کپاس کی فصل تسلی بخش بتائی جاتی ہے نسیم عثمان اینڈ سنز کے نمائندوں نے گزشتہ دنوں سندھ کے کپاس پیدا کرنے والے کئی علاقوں کا دورہ کیا تھا اور ایک سروے رپورٹ میں انہوں نے بتایا کہ تاحال ابھی کی بوائی اچھی ہے اور جننگ پروسیس بھی صحیح جا رہا ہے۔

کچھ علاقوں میں پاس کے پودوں کے قد نسبتا چھوٹے رہ گئے ہیں لیکن اس میں پھل تسلی بخش ہے اگر مناسب بارش ہوگئی تو یہ پودے مزید مضبوط اور ان پودوں کے قد میں بھی اضافہ ہوگا پھل بھی مزید بڑھ سکیں گے۔ صوبہ سندھ میں پانی کی کمی بتائی جاتی ہے جس کے سبب کپاس کی فصل متاثر ہورہی ہے فی الحال صوبہ سندھ میں تقریبا 35 تا 40 جننگ فیکٹریاں جزوی طور پر چل رہی ہے جبکہ صوبہ پنجاب میں زیادہ تر سندھ کی پھٹی اور کچھ مقدار میں پنجاب کی بھٹی سے مس روئی تیار کی جارہی ہے سندھ و پنجاب میں فی الحال روئی کی کوالٹی عمدہ بتائی جا رہی ہے۔

بہر حال صوبہ سندھ اور پنجاب میں کپاس کی بوائی کے رقبے کے متعلق مختلف آرا سامنے آرہی ہے فیڈرل کمیٹی آف ایگریکلچر نے صوبہ سندھ میں کپاس کی بوائی کے لیے 17 لاکھ ایکڑ رقبہ اور صوبہ پنجاب میں 40 لاکھ ایکڑ کا رقبہ مختص کیا تھا یعنی مجموعی طور پر 2.32 ہیکٹر رقبہ تھا لیکن ذرائع کے مطابق صوبہ سندھ میں صرف تیرہ 13 تا 14 لاکھ ایکڑ پر اور صوبہ پنجاب میں 32 تا 34 لاکھ ایکڑ پر کپاس بوئی گئی ہے۔

جو 1.9 ملین ہیکٹر ہے۔ FCA نے 22-2021 کی سیزن کے لیے کپاس کا پیداواری تخمینہ ایک کروڑ 5 لاکھ گانٹھوں کا لگایا ہے لیکن کپاس کے کاروبار سے منسلک حلقوں کا خیال ہے کہ اگر موسمی حالات موافق رہے تو روئی کی پیداوار 80 لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ ہو سکے گی۔دریں اثنا 22-2021 کے سالانہ بجٹ میں کپاس کی فصل بڑھانے کے لیے مراعات دینے کی بجائے سیلز ٹیکس کی مد میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے سبب کپاس کے کاروبار سے منسلک تمام اسٹیک ہولڈرز سیخ پا ہیں روئی پر 10 فیصد سیلز ٹیکس نافذ تھا بجٹ میں اسے بڑھا کر 17 فیصد کر دیا گیا جبکہ بنولہ تیل پر پہلے کوئی ٹیکس نہیں تھا اس پر 17 فیصد نیا ٹیکس نافذ کر دیا گیا۔

PCGA کے چیئرمین ڈاکٹر جیسومل لیمانی اور ان کے عہدے داران نے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے اور اگر اسے واپس نہ لیا گیا تو ملک کی تمام جننگ فیکٹریاں احتجاجا بند کرنے کا کہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وزیر خزانہ اور دیگر منسٹرز اور پارلیمنٹرینز نے یقین دہانی کروائی تھی کہ سیلز ٹیکس ختم کردیا جائے لیکن وزیر خزانہ نے صاف طور پر کہہ دیا کہ سیلز ٹیکس کم کیا جائے گا نہ واپس کیا جائے گا۔

ڈاکٹر جیسومل لیمانی نے کہا کہ وزیر خزانہ نے کپاس کے پورے سیکٹر کی کمر میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ ایک اور جنر نے کہا کہ "ملک میں کپاس کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلی"۔ ایک اور عہدے دار نے کہا کہ "حکومت نے کاٹن سیکٹر کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی ہی" اس طرح کپاس سے منسلک حلقوں میں زبردست مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔صوبہ سندھ میں روئی کا بھاؤ فی من 12800 تا 13000 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 5600 تا 6000 روپے بنولہ کا بھا ؤفی من 1900 تا 2000 روپے جبکہ صوبہ پنجاب میں روئی کا بھاؤ فی من 13500 تا 13600 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 5600 تا 6400 روپے بنولہ کا بھا ؤفی من 2000 تا 2100 روپے رہا۔

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 300 روپے کا اضافہ کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 12900 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔کراچی کاٹن بروکرزفورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن کے بھاؤ میں مجموعی طور پر ملا جلا رجحان رہا نیویارک کاٹن کے وعدے کا بھا ؤاتار چڑھا کے بعد فی پانڈ 87 امریکن سینٹ پر بند ہوا۔ USDA کی ہفتہ وار برآمدی رپورٹ گزشتہ ہفتہ کی نسبت 37 فیصد کم رہا لیکن امریکہ میں کپاس پیدا کرنے والے کئی علاقوں میں روئی کی فصل متاثر ہونے کی خبریں گردش کررہی ہے۔

پیداواری رقبہ بھی معمولی کم بتایا جا رہا ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی کے بھاؤ مستحکم رہیں گے۔ کئی ممالک میں Covid-19 کے اثرات کم ہونے کی وجہ سے کاروبار میں اضافہ دیکھا جارہا ہے جس کے باعث روئی کی مانگ میں اضافہ ہونے کی توقع ہے۔برازیل اور وسطی ایشیا وغیرہ میں روئی کا بھا نسبتا مستحکم رہا بھارت میں روئی کے بھا میں اتار چڑھا کے بعد مجموعی طور پر اضافہ رہا۔

ممبر نیشنل اسمبلی این اے 176 جناب شیخ فیاض الدین صاحب کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ترقی کیسے کرے گا۔۔۔"زراعت پاکستان کی ریڑ کی ہڈی ہے، لیکن اس حکومت نے زراعت کیلئے کوئی کام نہی کیا نا کوئی پالیسی بنائی، یہ ریڑ کی ہڈی اب اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ مزید بھوج نہیں اٹھا سکتی۔پاکستان کی GDP کا 32 فیصد حصہ زراعت سے آتا ہے اور روزگار کے 50 فیصد مواقع زراعت سے وابستہ ہے۔

سن اسی کی دہائی میں پاکستان کا دنیا میں کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں دوسرا نمبر تھا اور نوے کی دہائی میں بدقسمتی سے کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر تیسرا ہو گیا اور آج سے چند سال پہلے پاکستان کا نمبر چوتھا ہوگیا اور بدقسمتی سے اس سال 56 لاکھ گانٹھیں پیدا کرکے ہم شرمندہ کھڑے ہیں اور دنیا میں کپاس پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست میں ہمارا کوئی مقام نہیں ہے۔

جب ہم دنیا میں کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر تھے اس وقت بھارت کا نمبر تیسرا تھا اور اس سال 12 ملین ہیکٹر پر کپاس کی کاشت کرکے دنیا کا سب سے بڑا ملک بننے جارہا ہے جو کپاس پیدا کرے گا ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم آگے کے بجائے پیچھے کی طرف ترقی کر رہے ہیں۔اس سال ہمارے کپاس کا ٹارگٹ 2.2 ملین ہیکٹر پر کاشت کرنی تھی لیکن بدقسمتی سے وہ اس وقت تک 1.9 ملین ہیکٹر پر کاشت ہو سکی ہے۔ اس کمی کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی عدم توجہگی اور شوگر مافیا کا اثر منسوخ ہے اس اثر و رسوخ کی وجہ سے پاکستان میں دن بدن کپاس کی کاشت کا رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔