پاکستان کے خلاف سازشوں پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے،وزیر اطلاعات

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت تمام سہولیات ایک پلیٹ فارم کے تحت لانا چاہتے ہیں،چوہدری فواد حسین

جمعرات 2 ستمبر 2021 23:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 ستمبر2021ء) وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف سازشوں پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت تمام سہولیات ایک پلیٹ فارم کے تحت لانا چاہتے ہیں، میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قانون میں کریمنل سیکشن نہیں ڈالا جا رہا، میڈیا ورکرز کے حقوق اور جھوٹی خبروں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی جاوید لطیف کی صدرات میں ہوا۔ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا کہ صحافیوں پر حملے پر میں نے سب سے پہلے مذمت کی تھی، سندھ میں تو ہمارے صحافی جان سے گئے ہیں لیکن ان کی کوئی بات نہیں کرتا۔

(جاری ہے)

جہاں تک ابصار عالم کا تعلق ہے وہ خود کہ چکے ہیں کہ وہ صحافی نہیں ہیں، ایک ٹی وی پروگرام میں خود کہا تھا کہ وہ صحافی نہیں اور یہ بات ریکارڈ پر ہے لیکن کون کہاں کام کر رہا اس کو اس بات پر فخر ہونا چاہئے، یہ کیا ہوا ہے کہ میں ادھر ہوں بھی اور شرمندہ بھی ہوں، ابصار عالم پر حملہ کا معاملہ وزارت داخلہ کو بھیجنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حامد میر اور عاصمہ شیرازی کے خلاف مقدمات کا معاملہ حل ہو چکا ہے۔

ملک میں میڈیا آزاد ہے اور اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔ انہوں نے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی پر اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا فریم ورک تیار کیا اور اس پر متعلقہ تنظیموں سے تجاویز مانگی گئیں۔ سی پی این ای، پی بی اے سمیت دیگر صحافتی تنظیموں کے ساتھ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی پر ملاقاتیں کی گئیں۔ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی پر اتفاق رائے سے آگے بڑھیں۔

کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے قواعد و ضوابط نہیں ہونے چاہیئں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 150 بلین ڈالر کا نقصان ہمارا ہوا، 80 ہزار قربانیاں ہم نے دیں اس کے باوجود ایف اے ٹی ایف میں ہم ہیں لیکن بھارت سے کوئی نہیں پوچھتا۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ پاکستان کے خلاف سازشوں پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، پاکستان کے خلاف سازشوں کو ملکر ناکام بنانا ہے، افغانستان اور بھارت سے پاکستان کے خلاف ٹویٹر ٹرینڈز چلائے گئے۔

پاکستان پر پابندیوں کا ٹرینڈ افغانستان سے چلایا گیا، اس ٹرینڈ کی سہولت کاری را کر رہی تھی۔ میڈیا وار گیم چل رہی ہے، میڈیا کو بطور ٹول استعمال کیا جاتا ہے۔ سی پیک کے خلاف آرٹیکل چھپتے ہیں مگر ہمارا موقف نہیں آتا۔ میڈیا ورکرز کے حقوق اور جھوٹی خبروں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کے حوالے سے زیادہ دبائو بھی ان دو چیزوں کے حوالے سے ہے۔

انہوں نے کہاکہ وشل میڈیا پر تشہیر25 ارب تک پہنچ چکی ہے۔اس پیسے کو ریگولیٹ کرنا ہے جو ڈالر کی صورت میں پاکستان سے باہر جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیٹلائیٹ چینل پاکستان میں 114 ہیں۔ نیوز کے 31 انٹرٹینمنٹ کی42 چینل ہیں۔ 42 چینلز کو لینڈنگ رائٹس دیئے گئے ہیں، بچوں کے 14 چینلز ہیں۔ ایف ایم ریڈیو 258 ہیں۔ 4026 کیبل ٹی وی آپریٹر ہیں۔ موبائل ٹی وی چھ ہیں آئی پی ٹی وی بارہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیبل ٹی وی آپریٹرز کو مواد خرید کر چلا نے کی بھی اجازت ہو گی۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ 1672 اے بی سی سرٹیفائیڈ اخبارات ہیں۔ اخبارات کی بہت بڑی تعداد فیک اخبارات کی ہے۔185 ملین موبائل سبسکرپشن ہے۔ انہوں نے کہاکہ104 ملیں براڈ بینڈ سبسکرائبرز ہیں، 102 ملین تھری جی فور جی سبسکرائبر ہیں۔ساڑھے 6 کروڑ لوگ واٹس ایپ پر ہیں۔

چوہدری فواد حسین نے کہاکہ گوگل اور فیس بک نے سات ارب کے اشتہارات پاکستان سے ایک سال میں لئے ہیں۔ آن لائن گیمنگ بہت بڑی انڈسٹری بن گئی ہے، پاکستان کے ایک بچے نی16 ملین ڈالر گیم کھیل کر کمائے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میڈیا کو ریگولیٹ کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ برطانیہ، انڈیا ، آسٹریلیا، سنگاپور اور یورپی قوانین کا مطالعہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ای یو ڈس انفارمیشن لیب میں 875 جعلی ویب سائٹس کے ذریعے پاکستان سے متعلق جعلی خبریں پھیلائی جاتی تھیں۔

کراچی میں سول وار کا ٹرینڈ بھارت احمد آباد سے شروع کیا گیا۔ کراچی میں ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی ہو رہی تھی، سول وار کا ٹرینڈ چلایاگیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے اجلاس کو بتایا کہ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے سات قوانین اور باڈیز ہیں۔ پریس کونسل نے 50 کروڑ خرچ کر کے 29 کیسوں کا فیصلہ کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالہ سے آسٹریلیا اور انگلش قوانین سے مدد لی ہے۔

تمام قوانین کو ایک پلیٹ فارم کے ماتحت لانا چاہتے ہیں۔ اس اقدام کے ذریعے میڈیا اور صارفین کو ون ونڈو آپریشن دینا چاہتے ہیں۔ کسی بھی فلم کے این او سی میں شدید مشکلات درپیش ہیں، فلم کے این او سی کیلئے بھی ون ونڈو آپریشن شروع کرنا چاہتے ہیں۔ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قانون میں کریمنل سیکشن نہیں ڈالا جا رہا۔ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت پانچ ڈائریکٹوریٹ قائم کئے جائیں گے۔

اتھارٹی کے تحت میڈیا کمپلینٹ کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ سات بڑے شہروں میں پہلے میڈیا کمپلینٹ کمیشن بنائے جائیں گے، کمپلینٹ کمیشن کی تعیناتیوں کیلئے ایک خود مختار کمیشن ہو گا۔ کمیشن میں چار ممبران حکو مت اور چار میڈیا انڈسٹری سے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کمیشن کے فیصلہ کے خلاف میڈیا ٹربیونل میں اپیل کی جا سکے گی، میڈیا کمیشن 21 دن میں اپنا فیصلہ سنائے گا جبکہ میڈیا ٹربیونل چار ہفتوں میں فیصلہ سنائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ میڈیا ملازمین کنٹریکٹ پر بھرتیاں کریں اور اس کے مطابق عملدرآمد یقینی بنایا جائے جو کہ صحافیوں کا بنیادی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹربیونل کا سربراہ ہائیکورٹ کا حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج ہونا چاہئے، ٹربیونل کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ صحافتی تنظیمیں اس حوالہ سے جو بھی تجاویز دیں ان کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ چیئرمین کمیٹی نے اس موقع پر مریم اورنگزیب کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی ممبران میں ارکان قومی اسمبلی شوذب کنول اور نفیسہ شاہ شامل ہیں۔