اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 دسمبر2021ء) 1947 میں مسلم ریاست جوناگڑھ کے
پاکستان کے ساتھ الحاق کے معاہدہ کے باوجود یہ ریاست گزشتہ 74سال سے بھار ت کے غیر قانونی قبضہ میں ہے ،جونا گڑھ جغرافیائی سٹریٹجک اہمیت اور بحیرہ عرب تک رسائی کے سبب علاقائی تجارتی روٹ کے لئےمنفرد حیثیت رکھتی ہے
۔کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری کی گئی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق مسلم ریاستوں میں جونا گڑھ دوسری سب سے بڑی ریاست اورامیرکے باعث منفرد اہمیت کی حامل ہے جو برطانوی
ہندوستان کی 561شاہی ریاستوں میں محصولات پیدا کرنے کے لحاظ سے پانچویں بڑی ریاست شمار کی جاتی تھی ، یہ برطانوی
ہندوستان کی ایک بڑی شاہی ریاست تھی جس کا تقریباً4 ہزار مربع میل کا رقبہ تھا اور اس کی اپنی
فوج اور نظم ونسق کا مناسب انتظام تھا تاہم
بھارت نے ویانا کنونشن کے قانون کی دفعہ 26 کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس پر غیر قانونی طورپر قبضہ کرلیا۔
(جاری ہے)
رپورٹ میں تاریخی حقائق کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ جونا گڑھ کے اس وقت کے
گورنر نواب محبت خان جی نے
پاکستان کے
گورنر جنرل قائد اعظم
محمد علی جناح کے ساتھ معاہدہ کیا اور الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ یہ پہلی شاہی ریاست تھی جس نے 15 ستمبر 1947 کو
پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ نواب نے الحاق کے حوالے سے طریقہ
کار کی تفصیلات پر تبادلہ خیال کے لیے
کراچی کا دورہ کیا تھا مگر
بھارت نے 9 نومبر 1947 کو اپنی افواج بھیج کر جوناگڑھ پر قبضہ کر لیا تھا تاہم قائداعظم
محمد علی جناح نے مسئلہ کے حل کیلئے جنوری1948 کو
اقوام متحدہ سے رجوع کیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے
کشمیر سے متعلق اپنے کمیشن کو حکم دیا کہ جونا گڑھ کے مسئلہ کا جائزہ لیا جائے، یہ معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ جوناگڑھ قانونی طور پر
پاکستان کاناقابل تنسیخ حصہ ہے کیونکہ اس کے حقیقی الحاق کی دستاویز موجودہے جس پر نواب آف جوناگڑھ اور قائد اعظم
محمد علی جناح نے دستخط کیے تھے اس حقیقت کے باوجود کہ نواب نے ریاست کے
پاکستان کے ساتھ قانونی الحاق کے لئے دستاویز پر دستخط کئے
بھارت آبادی کی بنیاد پرجونا گڑھ پر قبضے کے حق کا دعویٰ کرتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ
بھارت نے بین الاقوامی قوانین اور تقسیم کے منصوبہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
کشمیر اور جونا گڑھ دونوں پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ ایک عالمی مسئلہ ہونے کی حیثیت سے اس معاملے کو
پاکستان کے وزیر خارجہ نے 1948 میں
اقوام متحدہ میں بھی اٹھایا۔ جونا گڑھ کے مسلمان 9 نومبر کو یوم سیاہ مناتے ہیں جب
بھارت نے 9 نومبر 1974 کو اس پر قبضہ کیا تھا۔
5 اگست 2020 کو
پاکستان نے
پاکستان کے ایک نئے سیاسی نقشے کی منظوری اور اسے جاری کیا جس میں جموں وکشمیر کے علاقے اور لداخ کا ایک علاقہ شامل ہے۔ نقشہ میں جونا گڑھ ، مناوادر اور
بھارتی گجرات کے
سرکریک کو
پاکستان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ تقسیم کے وقت
پاکستان کو وسائل کی کمی جیسے متعدد چیلنجوں کا سامنا تھا۔ کوئی منظم
فوج نہ تھی، پناہ گزینوں کا رش تھا اور
بھارتی جارحیت کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہ تھا۔
نواب اپنے اہل خانہ کے ساتھ اکتوبر کے آخر میں ریاست چھوڑ کر
کراچی آگئے اور ریاستی انتظامیہ دیوان کے ہاتھوں میں چلی گئی ۔ حال ہی میں جونا گڑھ کے نواب محمد جہانگیر خان جی نے وزیراعظم
عمران خان سے اپیل کی ہے کہ وہ جونا گڑھ کے ایک سفیر بنیں جس طرح کہ وہ
کشمیر کے کیس میں سفیر ہیں اور
بھارتی قبضے سے ریاست کی آزادی کیلئے تمام بین الاقوامی فورمز پر اس ایشو کو اجاگر کریں۔ بین الاقوامی قانون کی نظر میں
پاکستان کے دعویٰ کی قانونی حیثیت ہے اور
اقوام متحدہ کو ریاست کے مسلم شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ علاقائی تنازعات کے حل کیلئے پرامن کردار ادا کرنا چاہئے۔