سینٹ ،آئی ایم ایف نے 440 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کا کہا ہے، اصل بجٹ اب آئے گا، شوکت ترین

آپ تو وزیراعظم ہائوس سے ہیلی کاپٹر کیذریعے بنی گالا جاتے تھے،آپ نے کشکول توڑتے توڑتے پاکستان کا قرضہ ڈبل کردیا، شیری رحمن سینیٹ فنانس کمیٹی نے نہایت تفصیل سے اپنی سفارشات مرتب کی ہیں،امید ہے قومی اسمبلی ان سفارشات سے استفادہ حاصل کریگی، رضا ربانی ہر طرف دودھ کے چشمے پھوٹ رہے تھے یا شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں تو ہم حکومت میں آتے ہی کیوں،اعظم نذیر تارڑ کا اپوزیشن کو جواب

جمعرات 23 جون 2022 22:51

سینٹ ،آئی ایم ایف نے 440 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کا کہا ہے، اصل ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جون2022ء) سینٹ میں اپوزیشن نے ایک بار پھر آئندہ مالی سال کے بجٹ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ آئی ایم ایف نے 440 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کا کہا ہے، اصل بجٹ اب آئے گا ،اقتصادی سروے میں ہر چیز مستحکم تھی تو کس بات کا دیوالیہ ،دیوالیہ کچھ بھی نہیں ،صرف آپ کی نااہلی ہے۔سینٹ کا اجلاس جمعرات کو چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے میاں رضا ربانی نے کہاکہ سینیٹ فنانس کمیٹی نے نہایت تفصیل سے اپنی سفارشات مرتب کی ہیں،امید ہے قومی اسمبلی ان سفارشات سے استفادہ حاصل کرے گی۔

انہوںنے کہاکہ آرٹیکل 160کے تحت ہر پانچ سال این ایف سی آتا ہے،آئین کے تحت این ایف سی میں صوبوں کا حصہ پچھلے ایوارڈ سے کم نہیں ہو گا۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ 2010کے این ایف سی ایوارڈ ابھی تک معرض وجود میں ہے ،2015میں ایک نیا این ایف سی تشکیل دی گئی مگر مکمل نہیں ہو سکی،صدر عارف علوی نے بھی این ایف سی تشکیل دی،اس میں مشیر خزانہ کو این ایف سی چیئرکرنے کی اجازت دی گئی،اگلے بجٹ سے پہلے این ایف سی تشکیل یقینی بنائی جائے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ این ایف سی میں غربت کو بھی مدنظر رکھ کر حصہ دیا جائے،خیبر پختونخوا کیساتھ فاٹا کے انضمام کے بعد آبادی بڑھ گئی ہے۔ اجلاس کے دور ان بلوچستان میں حلقہ بندیوں کے معاملے پر سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کی رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی ۔رپورٹ چیئرمین کمیٹی سینیٹر تاج حیدر نے پیش کی۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہاکہ حلقہ بندیاں 2017کی مردم شماری کی بنیاد پر کی گئی،مختلف آبادیوں کے مابین فرق مساوی آبادی اور انتظامی باونڈری ہیں۔

انہوںنے کہاکہ الیکشن کمیشن نے مساوی آبادی کو نظر انداز کیا ،صرف انتظامی بائونڈری کو ترجیح دی گئی،اگر انتظامی بائونڈری حلقہ بندی میں رکاوٹ ہو تومساوی آبادی کو ترجیح دی جائے گی،حلقہ بندیاں ساتویں مردم شماری کے تحت ہی ہونے تھے۔سنیٹر دنیش کمار نے کہاکہ 2017کی مردم شماری کے تحت 2018میں حلقہ بندیاں ہوئیں،الیکشن کمیشن کو کیا ضرورت پڑی کہ یکا یک سارے حلقہ بندیوں کا اڑ دیا گیا،سینیٹ کمیٹی نے فوری نوٹس لیا ،امید ہے الیکشن کمیشن کمیٹی کی سفارشات کو ملحوظ خاطر رکھیں گے۔

سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہاکہ پتہ نہیں الیکشن کمیشن نے گھر بیٹھے کیسے حلقہ بندیاں کیں،کیسے ایک علاقے کو اٹھا کر دوسری جگہ پھینک دیا گیا،الیکشن کمیشن نے اسٹیک ہولڈرز کو بلایا بھی نہیں ۔سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ فاٹا کے احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے فاٹا کو خیبرپختو نخوا کے ساتھ انضمام کیا گیا،ٹارگٹ کلنگ اور محرومی اب بھی جاری ہے مگر وہاں کے چھ حلقے ختم کر دیئے گئے،فاٹا کی حلقہ بندیوں پر بھی اعراضات ہیں،وزیرستان کی آبادی کو 48لاکھ بتایا گا جبکہ اس وقت آبادی ایک کروڑ سے کسی طور کم نہیں۔

سینیٹر دوست محمد نے کہاکہ ہمارے ساتھ اس وقت سخت نا انصافی ہو رہی ہیں،ہمارے نوجوان کسی بھی وقت طالبان سے مل جائیں گے،فاٹا کے نوجوان طالبان کی طرف دیکھ رہے ہیں،فاٹا کے حلقہ بندیوں کے معاملے پر تحفظات دور کی جائیں۔ چیئر مین سینٹ نے کہاکہ اس معاملے کو کمیٹی کوبھجوادی ہے،وہاں بھرپور بحث کریں۔ ایوان میں بجٹ پر بحث کے دور ان سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ بجٹ کو آئی ایم ایف کا کہہ کر بجٹ پر تنقید کی جا رہی ہے،کونسی حکومت آتے ہی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے،بالکل یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے،اس پر کسی کو ابہام نہیں ہونا چاہیے،یہ ورثہ بھی پی ٹی آئی کی سابق حکومت کا تحفہ ہے۔

انہوںنے کہاکہ بجٹ کی وجہ سے ہمیں راتوں کو نیند نہیں آتی،آئی ایم ایف کی شرائط آج ماضی سے بہت سخت ہیں،اس لئے کہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ انہوںنے کہاکہ آپ تو وزیراعظم ہائوس سے ہیلی کاپٹر کیذریعے بنی گالا جاتے تھے،آپ نے کشکول توڑتے توڑتے پاکستان کا قرضہ ڈبل کردیا۔ انہوںنے کہاکہ سابق حکومت نے پاکستان کا قرضہ 25ہزار ارب سے سود ملا کر پچاس ہزار تک پہنچایا۔

شیری رحمن نے کہاکہ آپ نے پانچ سوارب کے ان ڈکلیرڈ کی سبسڈی دی،آپ نے سوچا ہم تو جا رہے ہیں پاکستان جائے بھاڑ میں،پاکستان کیخلاف اصل سازش پی ٹی آئی کی حکومت نے کی۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا،آپ نے خارجہ امور کو ایک کوڑے میں ڈالا،پاکستان کی خارجہ پالیسی کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ سابق وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین نے کہاکہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ایک اوربجٹ آ رہا ہے،کیا ہم لا تعلق ہے،حکومت 438ارب روپے کے نئے ٹیکسز عائد کرنے جا رہی ہے۔

انہوںنے کہاکہ اقتصادی سروے میں ہر چیز مستحکم تھی تو کس بات کا دیوالیہ دیوالیہ کچھ بھی نہیں ،صرف آپ کی نااہلی ہے،یکدم آپ کے وقت میں لوڈشیڈنگ کیسے شروع ہوئی،اس وقت درآمدات ستر نہیں 78ارب کے ہیں، ہم نے آپ کیلئے بہترین معیشت چھوڑ کرگئے آپ نے تین ماہ میں تباہ کر دیئے۔قائد ایوان سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ ہر طرف دودھ کے چشمے پھوٹ رہے تھے یا شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں تو ہم حکومت میں آتے ہی کیوں،اگر معیشت ٹھیک جارہی تھی تو کتنے گورنر اسٹیٹ بینک تبدیل کئے،کتنے چیئرمین ایف بی آر کوتبدیل کئے،انرجی کی سپلائی لائن کو ادھورا چھوڑنے پر انرجی کا بحران پیدا ہوا۔

انہوںنے کہاکہ احتساب کے نام پر لوگوں کیساتھ جو سلوک کیا گیا اس وجہ سے سرکاری ملازمین نے کام کرنا چھوڑ دیا،ہم نے امیر کے اوپر مزید ٹیکس لگائے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے آئل پرسبسڈی ختم کردی،حکومت چودہ ارب پٹرولیم سبسڈی برداشت نہیں کر سکتی،حکومت پاکستان نے پچھلے چار سال میں جومعاہدے کئے وہ ملکی مفاد میں نہیں تھے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی خاطر ہم نے اس کڑوے گونٹھ کوپی کر معاہدے کو آن کیا،وزیراعظم شہباز شریف نے انکو بھی ملکی معیشت کی بہتری کیلئے ساتھ دینے کا مشورہ دیا،انہوں نے مگر پارلیمنٹ کی بجائے سڑک پر ڈیرے ڈال دیئے،کھوکھلے دعوئوں سے ملک کے حالات بہتر نہیں ہونگے،آپ کے وعدے کو تو پوری قوم نے دیکھ لیا۔

اجلاس کے دور ان سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ،ریونیو اور اقتصادی امور کی رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی چیئرمین کمیٹی سینیٹر مانڈوی والا نے رپورٹ پیش کی۔ سلیم مانڈی والا نے کہاکہ کمیٹی ممبران نے سیاست سے بالاتر ہوکرکام کیا،تمام ممبران نے زیادہ تر متفقہ سفارشات دیں،کمیٹی نے گریڈ ون سے سولہ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی سفارش کر دی۔

چیئرمین کمیٹی نے سینیٹ فنانس کمیٹی کو مبارکباد دی ،سینیٹ نے سینیٹ فنانس کمیٹی کو ایڈاپٹ کر لیا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہاکہ میں ماضی کے مرثیے دہرانا نہیں چاہتا،ریاست بغیر گول کے چل رہی ہے،فیصلے کرنے کیلئے مشاورت ضروری ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہ غیر معمولی وقت ہے،ستر سال سے ہم اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں دخل انداز کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ہیں،ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے الیکشن کمیشن آزادنہ کام کام کرے گی،عدالتیں ایسے فیصلے کریں گی جس کو پوری دنیا سراہے گی۔

انہوںنے کہاکہ ہم پرانے طریقہ کار پر چل ہے ہیں،ہر جگہ یہ کہا جا رہا ہے کہ سیاسی استحکام کے بعد معاشی استحکام آئے گا،میں سمجھتا ہوں کہ معاشی استحکام کے بغیر سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ انہوںنے کہاکہ کسی ملک کی بھیک سے ہم کرترقی کر لے گا یہ بھول ہو گی،اگر کسی دوسرے ملک کی بھیک سے ترقی ممکن ہوتی تو پاکستان ترقی یافتہ ہوتا۔