شہباز تاثیر کے قید کے دوران خود پر گزرے 4 اذیت ناک سالوں سے متعلق دردناک انکشافات

اغواکاروں نے 4ارب کا مطالبہ کیا،تاوان کے بدلے نہیں بلکہ ڈرون حملوں کے دوران فرار ہونے میں کامیاب ہوا،قید کے دوران زمین کھود کر دبایا گیا صرف سر باہر تھا، کئی گھنٹے اسی اذیت میں رہتا تھا،کمر سے گوشت نوچا جاتا تھا،جس ذہنی اور جسمانی اذیت کا نشانہ بنایا گیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔شہباز تاثیر کا اردو پوائنٹ کو دئیے گئے انٹرویو میں اظہارِخیال

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان منگل 21 فروری 2023 16:16

شہباز تاثیر کے قید کے دوران خود پر گزرے 4 اذیت ناک سالوں سے متعلق دردناک ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ،اخبارتازہ ترین ۔ 21 فروری 2023ء) شہباز تاثیر سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے ہیں۔ 26 اگست 2011 کو مسلح افراد نے شہباز تاثیر کو ان دفتر کے قریب گلبرک لاہور سے گن پوائنٹ پر اغواء کیا تھا اور انہیں مختلف علاقوں میں رکھا، اغواء کار ان سے مختلف نوعیت کی معلومات حاصل کرتے رہے اور انہیں ذہنی اذیت دیتے رہے۔کہا جاتا ہے کہ 8 مارچ 2015 کو سیکورٹی فور س اور حساس اداروں نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے کوئٹہ کے علاقے کچلاک سے بازیاب کرایا۔

شہباز تاثیر نے 4 سال کس اذیت میں گزارے، کن علاقوں میں رہے اور اغواء کاروں کے چنگل سے نکلنے میں کیسے کامیاب ہوئے۔ان تمام سوالوں کے جوابات دینے کے لیے شہباز تاثیر نے ایک کتاب ’Lost The World‘ لکھی ہے جس میں انہوں نے خود کے ساتھ ان چار سالوں میں پیش آنے والے تمام واقعات سے متعلق لکھا۔

(جاری ہے)

اسی حوالے سے اردو پوائنٹ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2011 میں جب اغوا کاروں نے میری گاڑی کو گھیرا تو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس مقصد سے آئے ہیں۔

اغوا اور ڈکیتیوں جیسے واقعات کراچی جیسے علاقوں میں تو سننے کو ملتے تھے تاہم لاہور میں تب ایسا نہیں ہوتا تھا۔اغواکاروں نے مجھے مارنا شروع کیا تو میں نے اسے پیسے دئیے لیکن اتنے میں اغواکار گاڑی میں آئے اور انہوں نے میرا نام پکارا جو سن کر میں حیران رہ گیا، اسی لمحے احساس ہو گیا کہ یہ کوئی ڈکیتی کا واقعہ نہیں۔اغوا کاروں نے میری رہائی کے بدلے 4 ارب روپے اور 25 ہائی رینک ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

شہباز تاثیر نے اینکر حرا نوید کے ایک سوال کے جواب میں اغوا کاروں سے متعلق انکشاف کیا کہ اگر ان کی بتائی ہوئی ڈیمانڈ پوری نہ کی جائیں تو یہ آدمی کو مار دیتے ہیں۔ان لوگوں کے لیے کسی کی جان لینا یا کسی کی جان کے لیے پیسے لینا ایک ہی بات ہے۔میرے خیال سے ارب تو دور کی بات ہے اگر انہیں کروڑ روپے بھی دیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ دہشتگردی کو فنڈنگ کر رہے ہیں۔

شہباز تاثیر نے مزید بتایا کہ قید کے دوران جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔قیدِ تنہائی میں رکھا گیا،تین ماہ تک تو ایک ایسی جگہ رہا جہاں مجھے کوئی چیز میسر نہیں تھی،نہا نہیں سکتا تھا،ایک وقت کی روٹی ملتی تھی،ایک لوٹا پانی ملتا تھا۔گرمی اور مچھر بھی ہوتا تھا۔دن رات کا کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا۔ بالکل جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔

ایک بار 12گھنٹوں کے لیے زمین کھود کر ایک گھڑے کے اندر رکھا، صرف سر زمین سے باہر تھا۔پھر ویڈیو بنا کر میری والدہ کو بھیجی گئی۔والدہ کو کہا جاتا تھا کہ اس ویڈیو میں ایک پیغام ہے جو پوری ویڈیو دیکھنے پر ہی پتہ چلے گا۔میرے ساتھ یہ سلوک مہینوں تک جاری رہا۔یہ اذیت ناک لمحات میری والدہ کو بھی دکھائے جاتے تھے۔ شہباز تاثیر نے مزید بتایا کہ ڈرون حملہ ہوا جس کے بعد میں وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوا۔

پھر کچھ ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جن کے اندر کچھ انسانیت باقی تھی۔ اغوا کار کی ساس نے میری کچھ مدد کی تھی،ایک بار میری کمر سے گوشت نوچا چا رہا تھا، میں درد سے چیخ رہا تھا وہاں پر میری مدد کی گئی۔میرے لیے ناقابل یقین تھا کہ ایک خاتون جو مکمل پردے میں تھی اس نے میرے لیے اتنی ہمت دکھائی۔شہباز تاثیر نے ایک بات واضح کہ کہ ان کو تاوان کے بدلے رہائی نہیں ملی، درحقیقت ڈرون حملے کے دوران وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوا جب اغواکاروں کے دو گروپوں میں لڑائی ہوئی تھی۔

پھر ایسے لوگوں کے درمیان آ گیا جو اس بات کو ماننے کو تیار نہیں تھے کہ میں سابق گورنر کا بیٹا ہوں۔ بعدازاں میں نے ایک اور شخص کا روپ دھارا۔شہباز تاثیر نے مزید بتایا کہ جب افغانستان کے ایک صوبے سے بھاگا تو ایک افغان کمانڈر کے علاوہ کسی نے مدد نہیں کی، پاکستان آنے میں 7 دن لگے اور وہاں پر فوج نے ریسکیو کیا۔سب سے پہلی کال والدہ کو کی تھی اور شاید ان کے لیے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ میں زندہ ہوں۔والدہ کو بتایا گیا کہ میں مر چکا ہوں۔