Live Updates

جہاں منصف مدعی یا ملزم ہو اور مفاد وابستہ ہو تو ان کو منصفی کی کرسی میں نہیں بیٹھنا چاہیے، خواجہ آصف

منگل 30 مئی 2023 23:17

جہاں منصف مدعی یا ملزم ہو اور مفاد وابستہ ہو تو ان کو منصفی کی کرسی میں ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 مئی2023ء) وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ جہاں منصف مدعی یا ملزم ہو اور مفاد وابستہ ہو تو ان کو منصفی کی کرسی میں نہیں بیٹھنا چاہیے، ہم کوئی قانونی قدم اٹھائیں تو اسے بھی روکا جاتا ہے،چیف جسٹس سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کے عمل کو روک دیا ہے،زیر تحقیقات معاملات میں چیف جسٹس کی خوش دامن بھی شامل تھیں، اس لیے چیف جسٹس کو آڈیو لیکس کمیشن کے معاملے سے علیحدہ رکھا گیا، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے خود کو اپنے بیٹے کے کیس سے علیحدہ کر لیا تھا، موجودہ بھی کرسکتے ہیں،سیاست دانوں نے ماضی میں بڑی بڑی غلطیاں کی ہیںمگر انصاف کی کرسی پر اس قسم کی دو نمبری نہیں دیکھی، لگتا ہے عدلیہ میں اچھی روایات ترک کی جا رہی ہیں،آڈیو لیکس کمیشن، ایکٹ کے خلاف نوٹس لینے کی روایات قابل فخر نہیں قابل شرم ثابت ہوں گی۔

(جاری ہے)

منگل کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف نے شعر پڑھا کہ ’’بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی،کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں ۔ خواجہ آصف نے کہاکہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کا متحارب ہونے کا سلسلہ پچھلے کئی مہینوں یا ایک سال سے چل رہا ہے، نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اگر ہم کوئی ایسا قدم اٹھائیں جو طے شدہ اصول قانون ہے تو اس کی بھی مزاحمت کی جاتی ہے یا ختم کردیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مفادات کا ٹکراؤ بڑا بنیادی اصول ہے جہاں پر منصف مدعی یا ملزم بھی ہو یا بالواسطہ یا بلاواسطہ مفاد وابستہ ہو تو اصول یہ کہتا ہے یہ ان کو منصفی کی کرسی میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔وزیر دفاع نے کہاکہ اس ایوان نے ایک کمیشن بنایا اور وہ کمیشن کابینہ نے بنایا، جس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج اور ان کے ساتھ بلوچستان اور اسلام آباد کے چیف جسٹسز کو رکھا گیا۔

کمیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے محترم چیف جسٹس صاحب نے اس سارے عمل کو روک دیا، ہم نے پارلیمنٹ کے اراکین کو اس پر مقرر نہیں کیا یا عدلیہ کے باہر سے کسی کو کمیشن میں تعینات نہیں کیا۔انہوںنے کہاکہ چیف جسٹس کو اس لیے شامل نہیں کیا گیا کہ ان ٹیپس میں ان کی خوش دامن اور ان کا بیان شامل تھا، انصاف کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ کمیشن بنایا اور چیف جسٹس سے امید تھی کہ وہ مہربانی کریں گے اور اپنی ذات کو اس چیز سے دور رکھیں گے اور انصاف کا ترازو اس کمیشن کے ہاتھ میں رہنے دیں گے تاکہ وہ انصاف کرسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ آڈیو ٹیپس یا جو گفتگو سنی جاتی ہیں یا آڈیو لیکس شاید فون یا ڈیوائس کے ساتھ کچھ لگا کر کی جاتی ہیں، آج کل برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان میں موبائل ہیک کیا جا سکتا ہے اور تمام گفتگو ریکارڈ پر آسکتی ہے، اس کے لیے سننے والی ڈیوائس کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔آڈیو ٹیپس سے متعلق انہوںنے کہاکہ ہیکرز دنیا میں کہیں بھی بیٹھ کر ہیک کر سکتے ہیں، امریکا اور دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کی انٹیلی جینس میں مداخلت ہوئی اور معلومات چوری کی گئیں اور یہ قصہ پاکستان میں بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے ایک کمیٹی بنائی اور اسلم بھوتانی اس کے انچارج ہیں اور میری اطلاع ہے کہ ثاقب نثار کے بیٹے نے اس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دے دی۔خواجہ آصف نے کہا کہ ثاقب نثار کے بیٹے کی باقاعدہ کروڑوں روپے کا سودا کرتے ہوئے آواز ہے، یا تو آواز سے انکار کریں کہ یہ آواز میری نہیں ہے یا بتائیں کہ وہ اس گفتگو میں کوئی بڑا نیک کام کر رہے تھے یا کوئی بڑا فلاحی کام کر رہے تھے، وہ تو اپنی فلاح کا کام کر رہے تھے اورٹکٹ کے لیے کوئی ایک کروڑ 20 لاکھ کا سودا تھا اور ٹکٹ بھی اس الیکشن کیلئے جو ہونا نہیں تھے، 14 مئی گزر گئی اور انتخابات نہیں ہوئے پتا نہیں پیسے جو بیانیہ لیا تھا وہ واپس کیے یا نہیں کیے۔

انہوںنے کہاکہ آج سے چند برس قبل ایک کیس تھا اور اس وقت چیف جسٹس افتخار چوہدری تھے اور ان کے بیٹے کا ملک ریاض کے ساتھ مقدمہ تھا اور جب مقدمہ لگا تو چیف جسٹس نے خود کو الگ کرلیا اور خود منصف نہ بنے لیکن اس طرح کی روایات سپریم کورٹ کے چند لوگوں نے ترک کردی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری عدلیہ کی ایسی روایات تھیں جہاں تاریک روایات بھی تھیں وہاں پر اچھی رویات بھی تھیں تاہم لگتا ہے اچھی روایات کو ترک کیا جا رہا ہے، اگر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری خود کو الگ کر سکتے ہیں تو آج ایک ایسا مسئلہ جن میں ان کے عزیز کی آڈیو ٹیپس ہیں تو اپنے آپ کو اس بینچ سے علیحدہ کرنا چاہیے بلکہ دور دور کا بھی واسطہ نہیں رکھنا چاہیے تاکہ انصاف پر ان کی ذات اثر انداز نہ ہوسکے۔

وزیردفاع نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بنایا گیا اور اس میں چیف جسٹس کے اختیارات کو وسعت دی گئی تاہم اس پر دستخط نہیں ہوئے تھے اور قانون نہیں بنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا، ایک چیز جو عمل سے گزر رہی ہے اس کا نوٹس لیا یہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔انہوںنے کہاکہ ہم چاہتے تھے کہ اس سے ایک ایسا عمل متعارف کیا جائے، جس سے سپریم کورٹ میں ون مین شو کا تاثر ختم ہو، وہاں بھی جمہوریت کے اصولوں پر عمل درآمد ہو، ہم نے اس میں بھی باہر سے کسی کو نہیں ڈالا، ہم نے تجویز کیا تھا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں جو اختیارات استعمال کیے جا رہے ہیں، ان کا دائرہ کار وسیع کیا جا سکے، انصاف کی شفافیت بڑھائی جا سکے نہ کہ ون مین شو ہو، آمریت کا شائبہ یا آمریت کا سلسلہ جاری رکھا جائے لیکن اس کو بھی روک لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی نہ ہو، ہم چاہتے ہیں یہ ایوان عدلیہ کی عزت کرے تاہم جب چیف جسٹس کہتے ہیں یا پارلیمنٹ عدلیہ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی تو آئین میں اختیارات کا اصول ہے، جس میں کوئی بھی ادارہ دوسرے کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا، یہ اصول عدلیہ پر بھی لاگو ہے، وہ پارلیمنٹ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی، پارلیمنٹ بالادست ہے، آئین نے پارلیمنٹ کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور آئین کی روح سے پارلیمنٹ کا کردار متبرک ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہمیں تو کہہ رہے ہیں کہ ڈکٹیٹ نہ کریں لیکن وہی چیز سپریم کورٹ اور عدلیہ پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ وہ بھی کسی دوسرے ادارے کو ڈکٹیٹ نہ کرے، یہ صورت حال کا زیادہ دیر چلنا پاکستان کے آئینی انتظامات کیلئے نقصان دہ ہے۔انہوںنے کہاکہ ان لوگوں کے اپنے ذاتی مفادات ہیں، آڈیو لیکس میں بھی اگر آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں نوٹس لیا گیا ہے تو جس شخص نے درخواست دی ہے وہ خود ملوث ہے، آپ جرم چھپ کر یا ظاہری کریں وہ جرم ہی رہتا ہے، اگر اس کا نوٹس لیا جائے اور اس ادارے کی کمیٹی کے ذریعے یا عدلیہ کے ایک تین سینئر قابل احترام جج صاحبان شامل کیا تو وہ ان کے طبع نازک پر ناگوار گزرا اور وہ سب کچھ اپنے ہاتھ میں لیا۔

انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں نے ماضی میں بڑی غلطیاں کی ہیں لیکن ہم اپنے معاملات پر خود کبھی اپنے مرضی کے بندے کو بٹھا دیں، اس قسم کی دو نمبری کرسکتے ہیں لیکن اس قسم کی دو نمبری نہیں دیکھی کہ آپ انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہیں تو آپ ایسے موضوعات یا ایسے مقدمات یا ایسے تنازعات جس میں آپ کی ذات بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہے تو آپ اس میں کس طرح بیٹھ سکتے ہیں۔

وزیردفاع نے کہا کہ ہم آپ کی عزت بڑھانا چاہتے ہیں، ایک مضبوط اور قابل احترام اور کسی بھی شک و شبہ سے بالا عدلیہ کسی بھی معاشرے کے لیے ضروری ہوتی ہے، کوئی بھی معاشرے شک و شبہ سے بالا عدلیہ کے بغیر چل نہیں سکتا۔انہوںنے کہاکہ ہم نے آڈیو لیکس پر کمیشن بنایا اور دوسرا ہم نے ایکٹ پاس کیا تو اس پر کس طرح نوٹس لیا گیا، یہ کیسی روایات مرتب کر رہے ہیں، یہ روایات قابل فخر نہیں بلکہ قابل شرم ہوں گی، جو بھی ان روایات کا تخلیق کار ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی قابل شرم ہوں گی۔

وزیردفاع نے کہا کہ ہماری تاریخ میں ایسے چیف جسٹسز موجود ہیں، جن کے نام لیتے ہوئے مجھے حیا آتی ہے، ایسے چیف جسٹسز موجود ہیں شاید ان کی آنے والی نسلیں اپنی ولدیت بتاتے ہوئے شرماتے ہوں گے کہ ہم کس کے چشم و چراغ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسی روایات نہ بنائیں جہاں آپ کے اپنے ذاتی مفادات ہوں وہاں پر آپ انصاف کا ترازو اپنے ہاتھ میں رکھیں، آج ایک درخواست اسلام آباد میں دائر ہوئی ہے۔

انہوںنے کہاکہ جب ہمارے دائرہ کار میں مداخلت ہوگی تو پھر یہ ایوان جواب دینے پر مجبور ہوگا اور جواب تگڑا ہوگا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر مذاکراتی کمیٹی پاکستان تحریک انصاف چھوڑ جائے تو متبادل انتظام ہونا چاہیے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف ضرور پاکستان آئیں گے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ اگر مذاکراتی کمیٹی پی ٹی آئی چھوڑ جائے تو متبادل انتظام ہونا چاہیے، تحریک انصاف مذاکراتی کمیٹی بنانے کے ساتھ متبادل کمیٹی بھی بنائے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اگر پابندی کی فوری ضرورت پڑی تو اتحادیوں سے مشورہ بھی کرلیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق اتحادیوں سے مشاورت شروع نہیں ہوئی۔

وزیر دفاع نے کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان فوج کا ان حملوں سے ناتا جوڑ رہے ہیں، کیا انہوں نے جو کیا درست ہی خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان لوگوں کو اکسانے، منظم حملوں کا جواز اور بہانہ تلاش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کے الزامات بالکل غلط ہیں، وہ اب فوجی تنصیبات پر حملے کی توجیہ پیش کر رہے ہیں اور فوج پر غلط الزامات لگا رہے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ رینجرز نے گرفتاری میں پولیس کی مدد کی تھی، عمران خان کی گرفتاری میں فوج کا قطعاً کوئی کردار نہیں تھا۔قبل ازیں رکن اسمبلی از بلوچ نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں انصاف کے تقاضے پورے ہوں تاکہ لوگوں کو اچھے انداز میں یاد کیا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ انصاف بولتا ہوا اور دکھتا ہوا نظر آنا چاہیے ۔ انہوںنین کہاکہ میں کمیٹی کا حصہ ہوں ،ہم چاہتے ہیں ہماری طرف سے کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو،ہم کیوں توقع نہ رکھیں کہ ہمارے ساتھ بھی انصاف ہو ۔

انہوںنے کہاکہ ہمارے لیڈرز نے دو دو سال قید میں گزارے ،دو دو سال قید میں رہنے کے باوجود کچھ ثابت نہیں ہوا ،ہم نے نیب ترامیم کیں جن کا ان کو فائدہ ہوا ۔انہوںنے کہاکہ انصاف دینے والے ادارے ثابت کریں کہ کسی کی طرف داری نہیں ہورہی ،ججز سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے منصب اور پاکستان سے انصاف کرینگے۔نواب یوسف تالپور نے کہاکہ سندھ کو اس کے حصے کا پانی نہیں مل رہا،صوبوں کے درمیان جو ‘‘پانی کا معاہدہ’’ ہے اس پر عملدرآمد کیا جائے۔

ڈپٹی اسپیکر نے معاملہ متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا۔ نکتہ اعتراض پر مولانا عبد الاکبر چترالی نے کہاکہ چترال میں ایک بھی ٹرانسفارمر مینٹیننس ورکشاپ نہیں،کم از کم ہنگامی طور پر 10 ٹرانسفارمر ضلع چترال کو دینے کی رولنگ دی جائے ۔ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے رولنگ دی کہ ٹرانسفارمر ہر ضلع میں کم از کم 10 ہنگامی طور پر لازمی ہونے چاہئیں۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات