اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 اگست2023ء) وفاقی حکومت نے منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت کی روک تھام کیلئے نئی اتھارٹی کے قیام کا ایک بل
قومی اسمبلی کے بعد اگلے روز ہی
سینیٹ سے بھی منظور کرالیا جبکہ کئی
سینیٹ اراکین نے بل کی منظوری کی مخالفت کی
،پیپلز پارٹی کے سینیٹر
رضا ربانی نے بل منظور کرنے کی بجائے کمیٹی کو بھیجنے کی تجویز پیش کی تاہم چیئر مین سینٹ نے بل پر ووٹنگ کرادی ، بل کے حق میں 28اور مخالفت میں 9نو
ووٹ آئے ۔
جمعہ کو چیئرمین
سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت جاری اجلاس میں وزیر مملکت
حنا ربانی کھر نے نیشنل اینٹی منی لانڈرنگ اینڈ کاؤنٹر فنانسنگ آف ٹیررزم اتھارٹی بل 2023 ایوان بالا میں پیش کیا۔وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے کہا کہ اس بل کو منظور کیا جائے،
حنا ربانی کی جانب سے پیش کیا گیا بل کو
قومی اسمبلی نے منظور کیا ہے، اس بل میں تاخیر نہ کی جائے۔
(جاری ہے)
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ بارہ بارہ بل آ رہے ہیں تاہم اتنے بل ایک دن میں کیسے پڑھے جا سکتے ہیں، ہمیں ربڑ اسٹیمپ نہ بنایا جائے، آج ہمارے ایوان پر ایڈیٹوریل لکھے جا رہے ہیں، ایوان منظور کیے گئے سے 54 بل کی کیا ضرورت ہے۔کئی
سینیٹ اراکین نے بل کی منظوری کی مخالفت کی،
رضا ربانی نے کہا کہ بل منظور کرنے کی بجائے کمیٹی کو بھیجا جائے۔تاہم چیئرمین
سینیٹ نے بل پر ووٹنگ کرائی اور بل کو اراکین کی اکثریت کی حمایت کے ساتھ منظور کرلیا گیا، بل کے حق میں 28 اور مخالفت میں 9
ووٹ آئے جب کہ
رضا ربانی، کامران مرتضی، طاہر بزنجو اور عمر فاروق نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی حکومت نے
قومی اسمبلی میں قانون سازی کا عمل جاری رکھتے ہوئے اس بل کو منظور کرلیا تھا۔وزیر مملکت برائے خارجہ امور
حنا ربانی کھر کی جانب سے پیش کیے جانے والے بل میں نیشنل اینٹی منی لانڈرنگ اینڈ کاؤنٹر فنانسنگ آف ٹیرارزم اتھارٹی بنانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ایوان نے قواعد معطل کرکے اور متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجے بغیر بل کا جائزہ لیا تھا۔
حنا ربانی کھر نے امید ظاہر کی کہ مجوزہ اتھارٹی
پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے تعزیری اقدامات سے بچائے گی، جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے ہونے والی فنڈنگ پر نظر رکھنے والا عالمی ادارہ ہے۔یاد رہے کہ اکتوبر 2022 میں ایف اے ٹی ایف نے
پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج کردیا تھا، اس فہرست میں شامل ممالک کی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے نمٹنے کے لیے قانونی، مالیاتی، ریگولیٹری، عدالتی اور غیر سرکاری شعبوں میں خامیوں کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔
بل کے مطابق اتھارٹی کی سربراہی چیئرمین کریں گے، جس میں وفاقی سیکریٹریز برائے فنانس، خارجہ امور اور داخلہ؛
گورنر اسٹیٹ بینک، چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن ا?ف
پاکستان، قومی احتساب بیورو اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو؛ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای) کے ڈائریکٹر جنرل اور اینٹی نارکوٹکس فورس اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے دائریکٹر جنرل، قومی انسدا دہشت گردی اتھارٹی کے قومی کوآرڈینیٹر اور چاروں صوبوں، ا?زاد
کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیکریٹریز شامل ہوں گے۔
نئی قانون سازی کے مطابق مجوزہ اتھارٹی کے چیئرمین یا نصف ارکان کی درخواست پر اجلاس بلایا جاسکتا ہے
۔حنا ربانی کھر نے نئی اتھارٹی کے حوالے سے وضاحت کی تھی کہ یہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی انسداد کی کوششوں کو ادارہ جاتی بنانے گی اور یہ ایف اے ٹی ایف کی دو ضروری شرائط ہیں۔پہلے سے قائم نیکٹا اور حکومت کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو مجوزہ اتھارٹی کے تحت لایا جائے گا۔
اجلاس کے دور ان وفاقی
وزیر اطلاعات و نشریات مریم اور نگزیب نے
پیمرا ترمیمی بل
سینیٹ میں پیش کیا جس پر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان نے
احتجاج کیا اور نو نو کے نعرے لگائے۔اراکین نے مطالبہ کیاکہ بل کمیٹی میں واپس بھجوایا جائے،
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق نے کہا کہ ورکرز کی بہبود کا سہارا لے کر بل کے ذریعے سنسرشپ کو مضبوط کیا گیا۔
وفاقی
وزیر اطلاعات و نشریات
مریم اورنگزیب نے بل
سینیٹ میں پیش کرتے بل پر بارہ ماہ مشاورت ہوئی ، مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تعریف پر گیارہ ماہ مشاورت ہوئی، اس میں کوئی سزا نہیں صرف
جرمانہ بڑھایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلے چیئرمین
پیمرا لائنسن منسوخ کر سکتا تھا چینل بند کر سکتا تھا ، اب یہ اختیار چیئرمین سے لیکر اتھارٹی کو دیا ہے۔
انہوںنے کہاکہ صحافیوں کی کم از کم اجرت اور بقایات کی ادیگی کے لیے 2 ماہ رکھا گیا ہے ، خلاف ورزی پر ایک لروڑ سزا اور حکومت اشتہار نہیں دے گی، ڈیجیٹل پلاٹ فارم پر وہی کنٹیٹ چلے گا جو ٹی وی پر چلتا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اتھارٹی میں پی بی اے کا بندہ ، میڈیا نمائندہ اور صحافیوں کو نمائندگی دی گئی ہے، دس فیصد کنٹینٹ پبلک سروس میسج ہو گا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ سینٹر مشتاق احمد نے بل نہیں پڑھا، میں نے میڈیا سنسر شپ کو بھگتا ہے، میری جماعت اور قیادت نے بھگتا ہے، کوئی کام نہیں کر سکتی جو کسی آواز کو سنسر کرے، اس کا گلا گھونٹے۔انہوں نے کہا کہ پندرہ ماہ میں آزادی اظہار رائے عالمی سطح پر سات پوائنٹ بہتر ہوا ہے، کسی صحافی کو گولی نہیں لگی، کسی کی ہڈی پسلی ٹوٹی نہ ناک ٹوٹی، کوئی چلتا پروگرام اف ایئر نہیں ہوا۔اس دوران اپوزیشن راکین نے لاپتا صحافی عمران
ریاض کے بارے میں سوال اٹھایا اور پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا اس موقع پر چیئرمین
سینیٹ نے بل کو متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔