قومی اسمبلی میں کسی بھی جماعت کی جانب سے حکومت سازی کے لیے عددی اکثریت نہ ہونے پر آئین کیا کہتا ہے؟

رائے شماری کے دوران متحارب امیدواروں میں سے کسی ایک کا بھی 51 فیصد ووٹ حاصل نہ کرنے کی صورت میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ کروایا جائے گا یہ عمل کسی ایک کے اکثریت حاصل نہ کرنے تک جاری رہے گا.آرٹیکل91 میں وضاحت

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 22 فروری 2024 13:27

قومی اسمبلی میں کسی بھی جماعت کی جانب سے حکومت سازی کے لیے عددی اکثریت ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 فروری۔2024 ) قومی اسمبلی میں کسی بھی جماعت کی جانب سے حکومت سازی کے لیے عددی اکثریت نہ ہونے پر آئین میں کتنی گنجائش ہے؟یہ پچھلے کچھ ہفتوں سے ذرائع ابلاغ میں سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والا موضوع ہے.

(جاری ہے)

قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس اور قائد ایوان کا چناﺅآئین پاکستان کے تیسرے حصے میں ہے جبکہ اس حصے میں پایا جانے والا تیسرا باب وفاقی حکومت کی تشکیل اور ترکیب سے متعلق ہے‘آئین کے تیسرے باب میں شامل آرٹیکل 91 قومی اسمبلی میں قائد ایوان(وزیراعظم)کے انتخاب کے طریقہ کار کو بیان کرتا ہے آرٹیکل 91(2) میں بتایا گیا ہے کہ عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس پولنگ ڈے کے بعد 21 ویں روز طلب کیا جائے گا، جبکہ صدر مملکت اس سے قبل بھی پارلیمان کے ایوان زیریں کی بیٹھک بلوا سکتے ہیں.

نئی قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں سب سے پہلا کام نو منتخب اراکین کا حلف ہو گا، جس کے بعد تمام اراکین قومی اسمبلی حاضری رجسٹر پر دستخط ثبت کریں گے آرٹیکل 91(3) میں ذکر ہے کہ نئی قومی اسمبلی کوئی دوسرا کام کیے بغیر پہلے اپنا سپیکر اور پھر ڈپٹی سپیکر کے انتخابات عمل میں لائے گی اور ان دو کاموں کے فوراً بعد ایوان کے کسی مسلمان رکن کو وزیر اعظم (یا قائد ایوان) کے طور منتخب کرنے کے لیے آگے بڑھے گی.

وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے کسی بھی دوسرے الیکشن کی طرح شیڈول جاری کیا جاتا ہے، جس کے تحت امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرتے ہیں، جن کی جانچ پڑتال، اعتراضات، ان کے جوابات اور امیدواروں کی ابتدائی اور حتمی فہرستوں کا اجرا شامل ہوتے ہیں‘پاکستان کے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کے تمام اراکین پر مشتمل ہوتا ہے اور آرٹیکل 91(4) کے مطابق کسی امیدوار کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایوان کی مجموعی رکنیت کی کم از کم سادہ اکثریت (51 فیصد اراکین کے ووٹ) حاصل کرنا ہوتے ہیں.

اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی مجموعی طور پر 336 اراکین پر مشتمل ہے اور وزیر اعظم منتخب ہونے کے لیے کسی امیدوار کے لیے 169 اراکین کی حمایت ضروری ہے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کا انتخاب خفیہ بیلٹ کے ذریعے نہیں ہوتا بلکہ اس مقصد کے لیے شو آف ہینڈ کا طریقہ اپنایا جاتا ہے اور کسی ایک امیدوار کو 51 فیصد اراکین کی حمایت حاصل کرنے کی صورت میں منتخب قرار دیا جاتا ہے.

وزیر اعظم کے انتخاب کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے آرٹیکل 91(4) بیان کرتا ہے کہ پہلی رائے شماری کے دوران متحارب امیدواروں میں سے کسی ایک کا بھی 51 فیصد ووٹ حاصل نہ کرنے کی صورت میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ کروایا جائے گا‘آئین کے مطابق دوسری رائے شماری میں کامیابی کے لیے دو میں سے کسی ایک امیدوار کو کامیابی کے لیے اس وقت ایوان میں موجود اور ووٹ ڈالنے والے اراکین کے ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنا ہو گی.

آئین مزید وضاحت کرتا ہے کہ دوسری رائے شماری میں ٹائی (دونوں امیدواروں کے برابر ووٹ) کی صورت میں انہی دونوں امیدواروں کے درمیان اس وقت تک مزید رائے شماری کی جائے گی جب تک کہ ان میں سے کوئی ایک ایوان میں موجود اور ووٹ ڈالنے والے اراکین کے ووٹوں کی اکثریت حاصل نہ کر لے آئین کا آرٹیکل 91(5) بتاتا ہے کہ شق (4) کے تحت وزیر اعظم کا انتخاب مکمل ہونے کے بعد منتخب رکن کو صدر وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے بلائیں گے اور وہ ذمہ داری سنبھالنے سے قبل آئین میں دیے گئے تیسرے شیڈول میں درج فارم میں صدر سے حلف لیں گے.

آئینی وقانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے چناو¿ اور وفاقی کابینہ کی تشکیل کے بعد کیا ہو گا اس متعلق ابھی سے کچھ کہنا نہ صرف قبل از وقت بلکہ مشکل بھی ہے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل کا کہنا تھا کہ وقت کے گزرے نے ساتھ الیکشن ٹریبونلز میں انتخابی نتائج سے متعلق مقدمات کے فیصلے آنا شروع ہوں گے، جو صورت حال کو بالکل تبدیل کرنے کا موجب بن سکتے ہیں اگر وزیر اعظم کی حمایت کرنے والے اراکین میں سے چند یا زیادہ کو ٹریبونلز ہارا ہوا قرار دے دیتے ہیں تو چیف ایگزیکٹیو ایوان میں اکثریت سے محروم ہو جاتے ہیں تو یہ قائدایوان اور وفاقی کابنیہ کے لیے بہت بڑا چیلنج بن سکتا ہے.