ذوالفقار بھٹو کیس، سپریم کورٹ کی رائے سنتے ہوئے بلاول آبدیدہ ہوگئے

عدالت عظمیٰ کے 9 ممبر بنچ نے کیس کے ٹرائل اور اپیل کو 45 سال بعد فئیر ٹرائل کے تقاضوں کے منافی قرار دے دیا

Sajid Ali ساجد علی بدھ 6 مارچ 2024 11:54

ذوالفقار بھٹو کیس، سپریم کورٹ کی رائے سنتے ہوئے بلاول آبدیدہ ہوگئے
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 06 مارچ2024ء ) سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کیس میں سپریم کورٹ کی رائے سنتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آبدیدہ ہوگئے، اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ کے 9 ممبر بنچ نے کیس کے ٹرائل اور اپیل کو 45 سال بعد فئیر ٹرائل کے تقاضوں کے منافی قرار دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے کیس سے متعلق سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر رائے سنادی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رائے سناتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم کا ٹرائل ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھا، ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، ذوالفقار علی بھٹو کی سزا آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی، ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں لیکن جب تک غلطیاں تسلیم نہ کریں خود کو درست نہیں کرسکتے، ہم حلف کے پابند ہیں کہ قانون کے مطابق فیصلہ کریں، تاریخ کے کچھ فیصلے ایسے ہیں جن کی وجہ سے یہ صورتحال سامنے آئی، ایڈوائزری دائرہ اختیار کے تحت صدارتی ریفرنس پر رائے دے سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

بتایا جارہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجربینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، بنچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے، آخری سماعت میں صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے وکیل رضا ربانی کے دلائل دیئے، اس دوران انہوں نے کہا کہ ’بھٹو کیس کے وقت لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کر رہے تھے، اس وقت ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، بنیادی انسانی حقوق معطل تھے، اس وقت استغاثہ فوجی آمر جنرل ضیاء تھے، اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نئے الیکشن کے لیے معاملات طے ہو چکے تھے‘۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’کیا کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا؟‘ اس پر رضا ربانی نے کہا کہ ’معاہدے پر دستخط ہونا باقی تھے لیکن پھر مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، 24 جولائی کو ایف ایس ایف کے انسپکٹرز کو گرفتار کیا گیا، 25 اور 26 جولائی کو ان کے اقبالِ جرم کے بیانات آ گئے، مارشل لاء دور میں زیرِ حراست ان افراد کے بیانات لیے گئے، اس وقت مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، چیف جسٹس پاکستان، قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا ٹرائی اینگل تھا، ذوالفقار علی بھٹو کی برییت سے تینوں کی جاب جا سکتی تھی‘۔

اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ’رضا ربانی آپ کہہ سکتے ہیں کہ حسبہ بل میں عدالتی رائے بائنڈنگ تھی‘؟ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ ’حسبہ بل میں کتنے جج صاحبان تھے؟‘ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’حسبہ بل کے صدارتی ریفرنس میں بھی 9 جج صاحبان تھے‘، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ہم بھی 9 ہی جج ہیں، کوئی اختلاف بھی کر سکتا ہے‘۔ اس بات پر رضا ربانی نے کہا کہ ’اس وقت جج جج نہیں تھے، مختلف مارشل لاء ریگولیشن کے تحت کام کر رہے تھے، مارشل لاء ریگولیشن کے باعث ڈیو پراسس نہیں دیا گیا، بیگم نصرت بھٹو نے بھٹو کی نظر بندی کو چیلنج کیا تھا، اسی روز مارشل لاء ریگولیشن کے تحت چیف جسٹس یعقوب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا‘۔