کسان اتحاد کا احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان

گندم کی لاگت 4 ہزار روپے تھی لیکن کسانوں کو 2200 روپے ملے، اس بار ہم گندم کی کاشت سے قبل احتجاج کریں گے، صدر کسان اتحاد

muhammad ali محمد علی ہفتہ 2 اگست 2025 20:51

کسان اتحاد کا احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 02 اگست2025ء)کسان اتحاد کا احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان، کہا گندم کی لاگت 4 ہزار روپے تھی لیکن کسانوں کو 2200 روپے ملے، اس بار ہم گندم کی کاشت سے قبل احتجاج کریں گے۔ تفصیلات کے مطابق کسان اتحاد اور سندھ آباد گار نے گندم کی سرکاری قیمت کے عدم تعین پر 11اگست کو پنجاب اور 20 اگست کو سندھ میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا ۔

کراچی پریس کلب میں کسان اتحاد کے چیئرمین خالد حسین باٹھ نے سندھ آبادگار اتحاد کے صدر زبیر تالپور کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے کہا کہ 11اگست کو قصور میں ڈی سی آفس کے باہر زراعت کا علامتی جنازہ پڑھا لیا جائے گا، 20 اگست کو حیدرآباد پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں میں احتجاج کے بعد اسلام آباد کا رخ کریں گے، اس بار ہم گندم کی کاشت سے قبل احتجاج کریں گے اور ہمارے اس احتجاج سے سیاسی جماعتوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ دو سال میں گندم کاشت کرنے کی لاگت 4 ہزار روپے رہی، ہم سے 2200روپے کی گندم خریدی گئی، ہم کسان فارنزک آڈٹ کے لیے تیار ہیں۔ خالد حسین باٹھ نے کہا کہ حکومت 45 فیصد تک ٹیکس کا مطالبہ کرتی ہے، ہم منافع ہی نہیں کما رہے تو ٹیکس کہاں سے دیں، اگر حکومت نے گندم کی کاشت سے قبل گندم کا ریٹ مقرر نہ کیا تو ہم وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ سے بات چیت کریں گے، اگر پھر بھی ریٹ نہ دیا گیا تو 11 اگست کو پنجاب بھر میں احتجاج کیا جائے گا اور 20 اگست کو سندھ بھر میں احتجاجی تحریک شروع ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے دو سال سے گندم کے ریٹ کا تعین نہیں کیا، رواں سال حکومت کو 15 سے 20 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنی پڑے گی اور موسمیاتی تبدیلی بھی ہر سال فصلوں کو تباہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت تمام صوبوں کی کسان تنظیموں سے مشاورت کرکے ڈیم بنانے پر غور کرے، ڈیم اور نہروں کی تعمیر میں صوبوں کی مرضی کے خلاف کچھ نہ ہو۔

خالد حسین باٹھ نے کہا کہ بجلی کا فی یونٹ 50 سے 60 روپے پر دیا جا رہا ہے جو ناقابلِ برداشت ہے، اگر مودی حکومت نے کوئی ڈیم بنانے کی کوشش کی تو کسان تنظیمیں پاک فوج نے ساتھ کھڑی ہوں گی، حکومتی پالیسیوں کے سبب کسان کو بنیادی ضروریات کا حصول مشکل ہوچکا ہے۔ حکومتی پالسیوں پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا تقریباً ہر سال ڈی چوک پر جا کر دھرنا دیتے ہیں، کسانوں کے پاس قرضے ادا کرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی ہے، قرضوں کی عدم ادائیگی کی پاداش میں حکومت کسانوں کی زمینیں نیلام کردیتی ہے، حالانکہ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کسانوں کو گندم کا ریٹ دیا جائے۔