سرحد پارسے دہشت گردی کو برداشت نہیں کیا جائے گا،حکومتی اخراجات کم ،ایف بی آر کو ڈیجیٹائز،بجلی و گیس کی چوری کامکمل خاتمہ کریں گے،وفاق اور صوبوں کو مل کر چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا،وزیراعظم

بدھ 20 مارچ 2024 15:03

سرحد پارسے دہشت گردی کو برداشت نہیں کیا جائے گا،حکومتی اخراجات   کم ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 مارچ2024ء) وزیراعظم محمد شہبازشریف نے ملکی سرحدوں کو دہشت گردی کے خلاف ریڈلائن قرار دیتےہوئے کہا کہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو مزید برداشت نہیں کیاجائےگا،ہمسایہ ملک کی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونی چاہیے،ہمسایہ ممالک ہمار ےساتھ مل کر بیٹھیں اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے لائحہ عمل تیار کیاجائے،معیشت کومستحکم بنانااور قرضوں سے جان چھڑانی ہے، میثاق معیشت کے ساتھ میثاق یکجہتی کو بھی اپناناہو گا، 2400 ارب روپے کے محصولات کےمعاملات عدالتوں میں یا ٹریبونلز میں زیر سماعت ہیں ، چیف جسٹس نوٹس لے کر میرٹ پر ان کافیصلہ کرائیں،ایف بی آر کو 100فیصد ڈیجیٹائزکیاجائےگا، جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے انہیں ٹیکس کے دائرے میں لائیں گے ،حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے،بجلی و گیس کی چوری کامکمل خاتمہ کریں گے،وفاق اور صوبوں کو مل کر چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کااظہار بدھ کو وزیراعظم محمدشہبازشریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گفتگوکرتےہوئے کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی کابینہ کا یہ پہلا باقاعدہ اجلاس ہے جس میں تمام وفاقی وزرا اور سرکاری افسران کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ امید ہے کہ یہ کابینہ اپنی کارکردگی اور ذمہ داری کے حوالے سے پاکستان کے عوام کے اعتماد پر پورا اترے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ سب سے پہلے ہم اپنے شہدااور ان کے عظیم والدین اور اہل خانہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جن کے سپوتوں نے جرات اور بہادری کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا اور خود جام شہادت نوش کیا ، اس سے بڑی وطن کے ساتھ والہانہ محبت، قربانی اور ایثار کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں 15، 20 سال پہلے دہشت گردی نے سر اٹھایا تھالیکن عظیم قربانیوں کے نتیجے میں اس کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا، عصر حاضر میں دنیا میں اس کی اور کوئی مثال نہیں ملتی ، پاک فوج کے جوانوں کی وطن کے ساتھ والہانہ محبت انمول ہے۔

تقریبا 70، 80 ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جس میں افواج پاکستان کے افسران ، جوان ،پولیس، قانون نافذ کر نے والے اداروں کے اہلکار و افسران اور ان کے اہل خانہ اور چاروں صوبوں میں بسنے والے عام پاکستانی ڈاکٹرز، طلبہ، اساتذہ، انجنیئرز، وکلا سب شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کےخاتمے کے لیے قوم نے عظیم قربانیاں دی ہیں ، بدقسمتی سے چند سال پہلے پھر دہشت گردی نے سر اٹھایا ، اس کی وجوہات میں ابھی نہیں جانا چاہتے لیکن اتنی عظیم قربانیوں کے بعد بے پناہ توانائیاں اور وسائل خرچ کرنے کے بعد اس دہشتگردی کا واپس آنا کسی المیے سے کم نہیں ، دوبارہ اس کا سر کچلنے کے لیے ہمارے یہ شہید اور غازی جان ہتھیلی پہ رکھ کران کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔

چند دن پہلے لیفٹیننٹ کرنل سید کاشف شہید اور کیپٹن احمد بدر شہید کے والدین اور اہل خانہ سے ملنے گیا ، یقین کریں ان کے حوصلے نے میرا ایمان تازہ کر دیا، دونوں کے والدین کے حوصلے انتہائی بلند تھے۔ کیپٹن احمد بدر کے والد خود بھی ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں، انہوں نے کہا کہ میرا ایک ہی بیٹا تھا ،چار بہنوں کااکلوتا بھائی تھا، اللہ نے ایک بیٹا دیا یہ اس کی امانت تھی اس نے واپس لے لیا میں اس کی رضا پر راضی ہوں لیکن میرے بیٹے نے وطن کے لئے عظیم قربانی دی ہے اس پر بہت فخر ہے۔

شہدا کے والدین نے وزیراعظم سے کہا کہ ان دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے ، میں نے انہیں یقین دلایا کہ حکومت پاکستان اور افواج پاکستان مل کر اس کا خاتمہ کرنے کا پورا عزم رکھتے ہیں اور ان کا خاتمہ کیا جائے گا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں نے انہیں یقین دلایا کہ سرحد پار سے جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس کو برداشت مزید برداشت نہیں کر سکتے۔

پاکستان کی سرحدیں دہشت گردی خلاف ریڈ لائن ہیں ،ہمسائے ممالک کے ساتھ امن کے ماحول میں رہنا چاہتے ہیں، تجارت ،کاروبار اور باہمی تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمسایہ ملک کی زمین دہشت گردی کے لئے استعمال ہو گی تو یہ اب قابل برداشت نہیں ہے۔ یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح کے حالات میں سرحد پار سے دہشت گردی کو برداشت نہیں کیاجائےگا۔

ہمسایہ ممالک ہمارے ساتھ مل کر بیٹھیں اور لائحہ عمل تیار کریں اور خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کریں گے تو اس سے بہتر خطے میں امن قائم کرنے اور غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کا لائحہ عمل نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم نے کہاکہ مجھے امید ہے کہ اس حوالے سےہمسایہ ملک کے ارباب اختیار میری اس مخلصانہ تجویز پر غور کریں گے اور مل کر ہم انشاءاللہ خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ گفتگو کے حوالے سے وزیر خزانہ کابینہ کو اعتماد میں لیں گے، سابق حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے قریب کر دیا تھا اس کو بچانے کے لیے ہم نے یہاں تمام اجتماعی کاوشیں کیں۔اس سے ہمیں سیاسی نقصان ہو ا تو اس کاملال نہیں اور نہ ہو گاکیونکہ ریاست بچ گئی تو سیاست بھی انشاءاللہ بچ جائے گی، آئی ایم ایف کی ٹیم نےدوسرے جائزےکے لئے پاکستان کادورہ کیا،آئندہ بھی ہمیں ایک نئے پروگرام کی ضرورت ہے ۔

ہم نے معاشی بنیاد کو بحال کرنا ہے،ملک کو پائوں پر کھڑاکرناہےاور قرضوں سے جان چھڑانی ہے ۔اس فورم کے ذریعے کو پوری قوم کو یقین دلاتا ہوں ابھی تک جتنے بھی برادر اور دوست ممالک کے سفرا کے ساتھ ملاقات ہوئی ہیں ، واضح انداز میں انہیں گزارش کی کہ ہم اپ کے ساتھ زراعت ،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معدنیات ،صنعتی شعبے، ایکسپورٹ زونزاور انڈسٹریل زونز میں سرمایہ کاری کے لیے لائحہ عمل بنا کر پیش کریں گے۔

16 ماہ کی گزشتہ حکومت میں بھی ہم نے ایس آئی ایف سی کے ذریعے ہم نے کام کیا ۔ نگران دور میں بھی اس پر کام ہوا، ہماری حکومت نئے مینڈیٹ کے ساتھ اس پر کام کرے گی، قرضوں کو رول اوور کرانا اور مزید قرضے لینا ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ہم کوشش کریں گے کہ کم سے کم قرضہ لیں اور آہستہ آہستہ قرضوں سے جان چھڑا ئیں گے۔ اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم ملک میں سرمایہ کاری لے کے آئیں اور ملک کے ماحول کو سازگار بنائیں سیاسی اور معاشی ماحول کو بہتر بنانے اور یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش کریں ، اس کے لیے میثاق معیشت کی پیشکش کے ساتھ ساتھ میثاق یکجہتی پر بھی عمل کرناچاہیے۔

مل کر پاکستان کو ترقی کی منزل پر گامزن کریں گے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے 2400 ارب روپے کے محصولات کےمعاملات عدالتوں میں یا ٹریبونلز میں زیر سماعت ہیں ۔ وزیر قانون سے کہا ہے کہ وہ ٹربیونلز سے کہیں کہ جلد ان کافیصلہ کریں ۔ چیف جسٹس سے بھی التماس ہے کہ وہ تمام ہائی کورٹس کو ہدایت جاری کر یں کہ ان کیسز کا جلد سے جلد میرٹ پر فیصلہ کیا جائے ۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایف بی ار کو 100 فیصد ڈیجیٹائز کرنے کے لئے اور انسانی مداخلت ختم کرنے کے لیے کل آخری اجلاس کر لیا ہے ،8 اپریل کو عالمی معیار کے کنسلٹنٹس کی بڈز آ جائیں گی اور یہ ایسےکنسلٹنٹنس ہوں گے جنہیں ہمارے زمینی حقائق کا ادراک ہونا چاہیے اور ان کے پاس عالمی معیار کا تجربہ ہونا چاہیے ۔ 8 اپریل کو بڈز کھلیں گی اپریل کے تیسرے چوتھے ہفتے میں کنسلٹنٹس مقرر ہو جائیں گے جس کے ساتھ ایف بی آر کی ڈیجٹائزیشن کا عمل تیزی سے شروع ہو جائے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ قوم سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کے لیے وزیر خزانہ اور دیگر فریقین کے ساتھ مل کر جلد سے جلد اس پروگرام کو مکمل کریں گے ۔وزیراعظم نے کہا کہ مافیا اربوں کھربوں روپے کھائے جا رہا ہے اور باہر کے ممالک میں جمع کرارہاہے،اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، اس سلسلے میں وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی ار کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایسےفرض شناس افسران کی فہرستیں بنائیں ، ان کاقوم کے سامنے اعتراف کیاجائےگا اور جنہوں نے بھی بھیانک عمل میں حصہ لیا ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور ان کے ساتھ کوئی رعایت ہو گی۔

سالانہ بنیادوں پر وصولی ہونی چاہیے۔ اس سے ہمارے خزانے میں اضافہ ہوگا اورقرضوں میں بتدریج کمی آتی جائے گی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔کئی محکمے ایسے ہیں جن کی ضرورت نہیں ہے، اٹھارویں ترمیم میں کچھ محکمے صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں کچھ رکے ہوئے ہیں انہیں بھی صوبوں کے حوالے کیاجائےگا۔

اس کے علاوہ جہاں جہاں بھی اخراجات میں کمی لائی جا سکتی ہے ہم کمیٹی کی سفارشات پر عمل کر کے کمی لائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں سالانہ چار سے پانچ سو ارب روپے کے بجلی کی چوری ہو رہی ہے، اسی طرح گیس بھی چوری ہو رہی ہے، پٹرولیم اور پاور ڈویژن کے وزرا کو ہدایت کیا کہ وہ بجلی اور گیس کی چوری کے مکمل خاتمے کے لیے پلان پیش کریں ۔اس سلسلے میں کوئی سفارش اور کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی، اگر میں نے بھی کوئی ادائیگی کرنی ہے تو یہ ادائیگی ہونی چاہیے ، دیانتدار اور فرض شناس افسران کاقومی سطح پر اعتراف کیا جائے گا۔

وزیراعظم نے کہاکہ وفاق میں ہماری مخلوط حکومت ہے ، اسی طرح صوبوں میں بھی عوام نے حکومتوں کو مینڈیٹ دیا ہے، وفاق اور صوبوں کو مل کر چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا۔ وزیراعظم نے کہاکہ وزرائے اعلیٰ سے بھی ملاقات کروں گا اور پاکستان کو ایک عظیم ملک بنانے اور اقوام عالم میں ممتاز مقام دلانے میں وفاق اور چاروں اکائیوں نے مل کر کام کرنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف نے بھی کہا ہے کہ ٹیکس کا دائرہ وسیع کریں ، بجلی اور گیس چوری پر زیرو ٹالرنس ہوگی جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے انہیں ٹیکس کے دائرے میں لائیں گے اور اشرافیہ کا کلچر کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔

اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ میں یہ معاملہ لے کر جائیں گے اور اور تمام قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ سابق دور میں ہم نے جو ایس آئی ایف سی کا نظام بنایا ہے اس کے ذریعے سرخ فیتے اور رکاوٹوں کو ختم کیا گیا ۔ ملک میں سرمایہ کاری میں اضافے اور معیشت کے استحکام کے لئے یکسوئی اور یکجہتی کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔\932