پاکستان: آئی ایم ایف سے طویل المدتی بیل آؤٹ کا خواہاں

DW ڈی ڈبلیو منگل 26 مارچ 2024 14:40

پاکستان: آئی ایم ایف سے طویل المدتی بیل آؤٹ کا خواہاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 مارچ 2024ء) سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی، بدانتظامی، کووڈ انیس کی وبا، توانائی کے عالمی بحران اور موسمیاتی تبدیلی کے سبب آنے والی قدرتی آفات نے پاکستانی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت ادائیگیوں کے عدم توازن کی وجہ سے پیدا ہونے والے شدید بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک اور بیل آؤٹ پیکج کے لیے کوشاں ہے۔

تباہ حال پاکستانی معیشت کی ’گہری سرجری‘ ضروری، شہباز شریف

شہباز شریف نے ابھی حال ہی میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ''ہم آئی ایم ایف کے ایک اور بیل آؤٹ پیکج کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔

(جاری ہے)

‘‘

ان کا یہ بیان عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے ساتھ معاہدے پر عارضی رضامندی کے ایک دن بعد سامنے آیا تھا، جسے اگر آئی ایم ایف کی بورڈ نے منظور کر لیا تو موجودہ تین بلین ڈالر کے ہنگامی انتظام کے تحت 1.1 بلین ڈالر کی آخری قسط جاری کردی جائے گی۔

اس ہنگامی انتظام کی مدت 11اپریل کو ختم ہو رہی ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا

آئی ایم ایف نے پہلے ہی کہا تھا کہ اگر اسلام آباد اس کے لیے درخواست دیتا ہے تو درمیانی مدت کا کوئی پروگرام بنایا جائے گا۔ تاہم پاکستانی حکومت نے باضابطہ طور پر یہ نہیں بتایا ہے کہ وہ طویل المدتی بیل آؤٹ کے تحت کتنی اضافی فنڈنگ کی خواہش مند ہے۔

معاشی بحران سے رمضان کی خوشیاں بھی پھیکی

پاکستان کی 240 ملین سے زیادہ آبادی میں بہت سے لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے اور ملک کا غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

ملک میں افراط زر کی شرح 30 فیصد کے آس پاس ہے۔ پاکستانی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اور اجرتوں میں کمی سے پریشان ہیں۔ اس کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر بھی کم ہورہے ہیں۔

یہ اس وقت صرف آٹھ بلین ہے، جو کہ تقریباً آٹھ ہفتوں کی درآمدات کے لیے ہی کافی ہے۔

پاکستان آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالر قرض کا خواہاں

گزشتہ ماہ ہونے والے عام انتخابات کے بعد ایک کمزور مخلوط حکومت وجود میں آئی، جس کے سامنے 350 بلین ڈالر والی معیشت کو بدحالی سے نکالنے کے لیے انتہائی گہرے انتظامی مسائل سے نمٹنے کا مشکل چیلنج ہے۔

کراچی میں قائم ایک بروکریج کمپنی ٹاپ لائن سکیوریٹیز کے سی ای او محمد سہیل نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''اگر حکومت آئی ایم ایف سے طویل المدتی قرض حاصل کرتی ہے اور معاہدے کے شرائط پر عمل کرتی ہے، تو معیشت بحال ہو سکتی ہے۔‘‘

تاہم آئی ایم ایف کے پروگرامز میں بالعموم سخت شرائط لاگو کرنی پڑتی ہیں اور نظام میں اصلاحات کرنی پڑتی ہیں۔

پاکستان کے معاملے میں آئی ایم ایف کے ان پروگراموں میں گیس اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کو ختم کرنا، ٹیکسوں میں اضافہ کرنا اور خسارے میں چلنے والی سرکاری کمپنیوں کو فروخت کرنا بھی شامل ہو سکتا ہے۔

حکومت نے پہلے ہی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کو فروخت کے لیے پیش کر دیا ہے۔ پی آئی اے کی انتظامیہ پر ایک عرصے سے غیر پیشہ ورانہ انداز میں کام کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

ماہر اقتصادیات اور پالیسی تجزیہ کار صفیہ آفتاب نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''میری رائے میں نجکاری کی یقینی طور پر ضرورت ہے، جو کہ طویل عرصے سے زیر التوا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''نجکاری اور ملازمتوں کے ختم ہونے کی بیان بازی میں جو چیز ہم اکثر بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم سب، بشمول غریبوں کو، خسارے میں چلنے والی یا ناکارہ سرکاری اداروں کے لیے، ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں۔

‘‘

صفیہ آفتاب کہتی ہیں، ''ہم ادائیگی کرتے ہیں کیونکہ حکومت ان کے نقصانات کو بجٹ مختص کر کے اور قرضوں کے ذریعہ پورا کرتی ہے۔‘‘

محمد سہیل بھی ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایئر لائن اور خسارے میں چلنے والی دیگر کمپنیوں کی نجکاری پاکستان کے حق میں ہو گی کیونکہ اس سے حکومت کو ہونے والے نقصانات کم ہوں گے، ''ہم نے سن 1990کی دہائی کے اواخر میں بینکوں کے ساتھ ایسی ہی صورت حال دیکھی تھی اور نجکاری کے بعد بینکوں نے حکومت کو پیسے واپس کرنے شروع کردیے تھے۔

‘‘

لیکن نجکاری آسان نہیں

اس بات پر بھی تنقید ہوتی رہی ہے کہ حکام نجکاری کی مہم کو کس طرح آگے بڑھا رہے ہیں۔

ایک ماہر قانون اسامہ ملک نے گزشتہ سال قائم ہونے والے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) نامی ایک ادارے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ''گوکہ آئی ایم ایف کی طرف سے نجکاری کا مطالبہ معنی خیز ہے لیکن پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ شاید وہ نہیں ہے جو عالمی مالیاتی ادارے کو مطلوب ہے۔

‘‘

حکومت کے مطابق ایس آئی ایف سی کا مقصد سرمایہ کاری کو تیز اور آسان بنانے میں مدد کرنا ہے۔

ملک نے ایس آئی ایف سی میں آرمی چیف کی شمولیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ عملاً فوج کے کنٹرول میں ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم نے حال ہی میں دیکھا ہے کہ وفاقی حکومت کی ملکیت والی اہم تفریحی اور سیاحتی سہولیات کو فوج کی ملکیت والی ایک نئی کمپنی کے حوالے کردیا گیا۔

اس طرح کی 'نجکاری‘ ایک ایسے ملک میں کاروباری مسابقت پر فوج کی اجارہ داری پیدا کرسکتی ہے، جہاں مسلح افواج کا مختلف کارپوریٹ اداروں میں پہلے ہی کافی بڑا حصہ موجود ہے۔‘‘

ترقی کی منزل طے کرنے میں برسوں لگیں گے

ماہرین معاشات نے خبردار کیا کہ تکلیف دہ اصلاحاتی اقدامات مختصر مدت میں لوگوں کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔

صفیہ آفتاب کا کہنا تھا کہ درآمدات پر پابندیوں کا اثر مینوفیکچرنگ پر پڑتا ہے، خاص طور پر پبلک سیکٹر کے ترقیاتی پروگراموں میں کٹوتی کا مطلب گھریلو معیشت میں سرگرمیوں کا کم ہوجانا ہوتا ہے۔‘‘

انہوں نے پیشن گوئی کی کہ معاشی بحالی سست ہوگی اور ترقی کی واپسی میں کئی سال لگیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے مختصر مدت میں کوئی اہم پیش رفت نہیں ہو گی لیکن یہ کرنٹ اکاؤنٹ اور مالیاتی خسارے کو کم کرے گا جس سے افراط زر کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام دراصل ترقی کے لیے نہیں بلکہ استحکام کے حصول کے لیے ہے۔

ج ا/ (ہارون جنجوعہ، اسلام آباد)