Live Updates

ججزکے خط کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

انکوائری میں جو بھی مس کنڈیکٹ کا مرتکب پایا جائے اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ،موقف

بدھ 27 مارچ 2024 19:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 27 مارچ2024ء) اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے خط کا معاملہ پرجوڈیشل کمیشن تشکیل کی درخواست دائر کردی گئی۔بدھ کوسپریم کورٹ میں درخواست میاں داود ایڈووکیٹ نے دائر کی۔ججز کے 25 مارچ کے خط میں لگائے گئے مبینہ الزامات کی انکوائری کیلئے اعلی سطحی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔اوردرخواست میں استدعاکی گئی ہے کہ جوڈیشل کمیشن انکوائری میں جو بھی مس کنڈیکٹ کا مرتکب پایا جائے اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔

آئینی درخواست میں سپریم کورٹ سے بااختیار کمیشن تشکیل دیکر انکوائری کرانے کی استدعاکی گئی ہے۔درخواست میں کہاگیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا سپریم کورٹ کے ججز کو خط ایک طے شدہ منصوبہ لگتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے اشارے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے خط لکھا ہے،آئی ایس آئی کی عدالتی کارروائی میں مداخلت کیخلاف ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے نے سارا معاملہ مشکوک کر دیا ہے، یہ آئینی نقطہ نظام عدل سے وابستہ عام فرد بھی جانتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایسے تنازعات کی تحقیقات کا ادارہ نہیں، اس کے باوجود اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا جو عدلیہ کو سکینڈلائز کرنے کے مترادف ہے، چھ ججز نے اپنے خط میں عمران خان کے صرف ایک مقدمے کی مثال پیش کی ہے، عمران خان کے مقدمے کے علاوہ ججز نے خط میں ایک بھی مقدمے کا واضح حوالہ اور ثبوت نہیں دیا،ججز کا خط عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے، حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو سب سے زیادہ مقدمات میں غیر معمولی ریلیف اسلام آباد ہائیکورٹ سے ملا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے غیرمعمولی فیصلہ دیا،اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہی عمران خان کو جیل سے بیٹھ کر سیاسی مہم چلانے کی اجازت دی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کی وجہ سے ہی عمران خان کیلئے اڈیالہ جیل کو پرتعیش رہائش میں تبدیل کر دیا گیا ہے، عمران خان کی حمایت میں مسلسل فیصلے دینے کے بعد بھی آئی ایس آئی پر مداخلت کا الزام لگانا سمجھ سے بالاتر ہے، پشاور ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کی متعدد مقدمات میں عمران خان اور پی ٹی آئی کو غیر معمولی ریلیف کی مثالیں موجود ہیں، یہ تو ایسے ہی کہ جو جرم خود کر رہے ہیں، اسکا الزام دوسروں پر لگانا شروع کر دیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر تحریک انصاف نے فوری ردعمل دیا کہ یہی ہمارا مئوقف ہے، ججز کے خط سے عوام کو تاثر ملا کہ سپریم کورٹ سمیت پوری ملکی عدلیہ کو آئی ایس آئی چلا رہی ہے، اگر آئی ایس آئی کی مداخلت مان لیں تو کیا پھر پی ٹی آئی اور عمران کے حق میں فیصلوں میں بھی مداخلت ہوئی یا صرف مخالف فیصلوں میں مداخلت ہوئی ہے، پی ٹی آئی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور چیف جسٹس پاکستان پر عدم اعتماد کی متعدد کوششیں کیں، پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام ہوئیں تو عمران خان کو ریلیف دینے والے ججز کا مارکیٹ میں آگیا، ججز کا خط ریلیز ہوتے ہی تحریک انصاف نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور چیف جسٹس پاکستان کیخلاف مہم چلانا شروع کر دی، ان چھ ججز ایک برس کے دوران آئی ایس آئی کی مداخلت بارے خط و کتابت کسی کو لیک نہیں ہوئی لیکن یہ خط لیک ہوگیا، ان سارے حالات کی کڑیاں ملائیں تو لگتا ہے کہ ججز نے تحریک انصاف کا بیانیہ بنانے کیلئے کردار ادا کیا ہے، ججز کا خط عدلیہ میں کرپٹ مظاہر نقویوں کے بے رحمانہ احتساب کے عمل کو بھی ٹھیس پہنچانے کی کوشش ہے، جب سے چیف جسٹس پاکستان نے عدلیہ میں کرپٹ کیخلاف ڈنڈا اٹھایا ہے، تب سے مافیا کی نیندیں حرام ہوئی پڑی ہیں، اگر مزید کرپٹ ججز برطرف ہوتے ہیں تو ایک مخصوص مافیا کی عدلیہ میں سرمایہ کاری کو نقصان پہنچتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک مافیا کے لوگ مختلف حربوں اور طریقوں سے چیف جسٹس پاکستان اور عدلیہ پر حملہ آور ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی خط ٹائمنگ نے بھی معاملہ مشکوک کر دیا ہے، کمشنر راولپنڈی کی پریس کانفرنس میں بھی چیف جسٹس پاکستان پر سنگین حملہ کیا گیا، چھ ججز کے خط کے ایک ایک لفظ کی عدلیہ اور فوج کو کھلے ذہنوں کے ساتھ تحقیقات کرنی چاہیئں، چھ ججز اور آئی ایس آئی سے ایک ایک مقدمے کی بابت دبائو، مقدمات کے نتائج کی تحقیقات ہونی چاہئیں، ججز کو کھلے دل سے موقع دیا جائے کہ آئیں ثبوتوں کے ساتھ اپنے الزامات ثابت کریں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز بتائیں کہ کون کون سے مقدمات میں کس کس آئی ایس آئی افسر نے دبائو ڈالا، آئین پاکستان ججز کو مداخلت کرنے والے عناصر کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار دیتا ہے، شکایات لگانے کا نہیں، عدلیہ میں آئی ایس آئی کی مداخلت کرنے یا نہ کرنے کا تنازع اب ایک ہی مرتبہ حل ہوجانا چاہیئے، سپریم کورٹ ایک بااختیار کمیشن بنانے کر ججز کے الزامات کی اوپن کورٹ انکوائری کرے،جو جج یا آئی ایس آئی افسر الزام ثابت نہ کر سکے، اسکے خلاف متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی کی جائے، واضح رہے کہ منگل کو حساس اداروں کی عدالتوں میں مبینہ مداخلت کے معاملات پر تحفظات ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے ججزکے احتساب کے اعلیٰ ترین فورم سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل سے رجوع کرتے ہوئے خط ارسال کیاتھاجواب منظر عام پر آچکاہے۔

(جاری ہے)

خط کی کاپی سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ممبران کو بھجوائی گئی۔خط میں عدالتی امور میں ایگزیکٹو اور ایجنسیوں کی مداخلت کا ذکر کیا گیا ہے جن ججزکی جانب سے خط سپریم جوڈیشل کونسل کوارسال کیاگیاہے ان میں جسٹس محسن اختر کیانی جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار،جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی شامل ہیں۔خط کی کاپی سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان کو بھجوائی گئی ہے۔خط میں عدالتی امور میں مداخلت پر کنونشن طلب کرنے کا موقف اختیار کیا گیا ہے کنونشن سے دیگر عدالتوں میں ایجنسیوں کی مداخلت بارے بھی معلومات سامنے ائیں گی ۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات