پاکستان ایران کی طرف ’’امن پائپ لائن‘‘ تعمیر کر رہا ہے

DW ڈی ڈبلیو پیر 8 اپریل 2024 19:20

پاکستان ایران کی طرف ’’امن پائپ لائن‘‘ تعمیر کر رہا ہے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اپریل 2024ء) تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود ایران پڑوسی ممالک پاکستان اور بھارت کو ''امن پائپ لائن‘‘ کے ذریعے ان کی قدرتی گیس کی ضروریات پوری کرنا چاہتا تھا۔

تاہم ایران پر لگی بین الاقوامی پابندیاں اس منصوبے کے آڑے آ رہی ہیں۔ ابتدا ہی میں بھارت پیچھے ہٹ گیا اور پاکستان میں بھی یہ منصوبہ جمود کا شکار ہو گیا۔

ان حالات میں اب تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ پاکستان کی نو منتخب حکومت اب اس امن پائپ لائن پراجیکٹ کا کام جلد ہی شروع کرنا چاہتی ہے۔

اس بارے میں ڈی ڈبلیو کی طرف سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں پاکستانی صحافی صبینہ صدیقی کا کہنا تھا،''پاکستان بین الاقوامی عدالتوں میں ایران کے ساتھ ممکنہ قانونی تنازعہ اور 18 بلین امریکی ڈالر کے جرمانے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے والی صبینہ کا مزید کہنا تھا،''تہران نے اسلام آباد کو پاکستان کی طرف پائپ لائن کی تعمیر مکمل کرنے کے لیے ستمبر 2024 ءکی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔‘‘ صبینہ صدیقی کے مطابق پائپ لائن کا پاکستانی حصہ 780 کلومیٹر طویل ہو گا۔

اس بارے میں سابق وزیر توانائی مصدق ملک نے مارچ کے آخر میں پریس کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا،''اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان ایران سے گیس کی درآمدات پر عائد امریکی پابندیوں کو ختم کروانا چاہے گا۔

‘‘

امریکی پابندیاں برآمدی منصوبے کی ناکامی

اسلامی جمہوریہ ایران 1990 ء کی دہائی سے پائپ لائن کی تعمیر کی کوشش کر رہا ہے۔ اصل میں یہ ایرانی گیس کو بھارت تک پہنچانے کا منصوبہ تھا۔ تاہم ایرانی جوہری پروگرام کے تنازعے میں ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارت اس منصوبے سے دستبردار ہوگیا۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ 2009ء میں معاہدہ کیا تھا لیکن ابھی تک اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

ایران کی حدود میں 900 کلومیٹر طویل یہ رابطہ لائن دس سال قبل مکمل ہوچُکی تھی۔

اسلام آباد نے اب اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے چند ہفتوں میں ایرانی سرحد کی طرف سے ملک کے جنوب مغرب میں بندرگاہی شہر گوادر تک گیس پائپ کے پہلے 80 کلومیٹر کی تعمیر شروع کر دے گا۔ اس طرح پاکستان ایران کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی کے ممکنہ الزام اور مقدمے سے بچ سکتا ہے۔

لیکن اب امریکہ ناراض ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے حال ہی میں کہا،''ہم پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی حمایت نہیں کریں گے۔‘‘ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے مارچ کے آخر میں ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا، ''ہم ہر کسی کو مشورہ دیتے ہیں کہ اس بارے میں احتیاط سے کام لیا جائے۔ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے ہماری پابندیوں کا سامنا کرنے کا خطرہ موجود ہے۔

‘‘

گیس پیدا کرنے والے گیس کی قلت کا شکار

واشنگٹن میں مقیم انرجی ڈپلومیسی اور انرجی سکیورٹی کے ماہر اُمید شوکری کے مطابق پاکستان اس وقت امریکہ کے ردعمل کے مقابلے میں اربوں ڈالر کے ممکنہ جرمانے کے بارے میں زیادہ فکر مند ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھاری جرمانے کا خوف بظاہر تعمیراتی منصوبے کے محدود اقتصادی فائدے پر بھی چھایا ہوا ہے۔

ماہر شکری کہتے ہیں، ''اسلام آباد کو معلوم ہے کہ ایران اپنے ملک میں قدرتی گیس کی قلت کے مسائل سے دوچار ہے اور وہ اپنے خستہ حال انفراسٹرکچر کی وجہ سے پاکستان کو گیس برآمد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔‘‘

دنیا بھر میں روس کے بعد دوسرے سب سے بڑے گیس کے ذخائر ایران میں ہیں اور اس کے بعد قطر اور امریکہ کا نمبر آتا ہے۔ اس کے باوجود ایران میں تقریباً ہر موسم سرما میں گیس کی کمی ہوجا تی ہے۔

ملک اپنے توانائی کے وسائل کو انتہائی غیر موثر طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ ایران تقریباً تمام صنعتی شعبوں خصوصاً لوہے، اسٹیل اور سیمنٹ کی صنعتوں میں توانائی کی زیادہ کھپت کے مسائل سے نمٹنے کی جدو جہد کر رہا ہے۔ عالمی توانائی کے شماریاتی جائزے کے مطابق ایران 2022 ء میں دنیا میں سب سے زیادہ گیس استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر رہا۔

صرف امریکہ، روس اور چین ایران سے زیادہ قدرتی گیس استعمال کرتے ہیں۔

کیا روس ایران کے لیے کوئی راستہ ہو سکتا ہے؟

تہران ماسکو کے ساتھ قریبی تعاون کا خواہاں ہے۔ یہ اس کی طرف سے امریکی پابندیوں کا جواب ہے۔ جولائی 2022 ء میں، روسی توانائی کمپنی Gazprom نے ایرانی تیل کمپنی NIOC کے ساتھ 40 بلین ڈالر کے تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

Gazprom دو گیس اور چھ آئل فیلڈز کی ترقی میں NIOC کی مدد کرتا ہے۔

لیکن اگر روسی گیس اس کی سرزمین سے پاکستان تک پہنچائی جائے تو ایران کو زیادہ کمائی نہیں ہوگی۔ پاکستانی صحافی صدیقی کو شبہ ہے کہ ایران پاکستان کے خلاف قانونی تنازعے کو کامیابی سے حل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ایران کے لیے ایک ممکنہ دروازہ ویانا میں قائم بین الاقوامی تجارتی قانون پر اقوام متحدہ کا کمیشن ہو سکتا ہے۔

تاہم غیر مستحکم علاقائی صورتحال، غزہ کی جنگ اور چند دیگر بحرانوں میں ایران کے کردار کے پیش نظر، یہ امکان بھی بہت کم ہے کہ واشنگٹن ایران کو کامیابی سے اپنا مقدمہ آگے بڑھانے کی اجازت دے گا۔ پاکستانی صحافی صدیقی نے شبہ ظاہر کرتے ہوئے کہا،''اس کی بجائے، امریکہ پاکستان کو توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے متبادل رستوں کی پیشکش کر سکتا ہے۔‘‘

(شبم فان ہائن) ک م/ ع ب