2023 گزشتہ تین دہائیوں میں خشک ترین سال تھا، ڈبلیو ایم او

یو این منگل 8 اکتوبر 2024 00:30

2023 گزشتہ تین دہائیوں میں خشک ترین سال تھا، ڈبلیو ایم او

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 اکتوبر 2024ء) عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے بتایا ہے کہ 2023 گزشتہ تین دہائیوں کا خشک ترین سال تھا جب دریاؤں میں پانی کی مقدار میں غیرمعمولی کمی ریکارڈ کی گئی۔

دنیا میں تین ارب 60 کروڑ لوگوں کو ہر سال کم از کم ایک مہینے میں پانی کی شدید قلت کا سامنا رہتا ہے اور 2050 تک یہ تعداد پانچ ارب سے بھی بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔

Tweet URL

دنیا بھر میں آبی ذرائع کی صورتحال پر ادارے کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ پانچ سال کے دوران دریاؤں میں پانی کی مقدار معمول سے کم رہی اور آبی ذخائر میں بھی بہت کم پانی پہنچا۔

(جاری ہے)

اس طرح انسانی آبادیاں، زراعت اور ماحولیاتی نظام پانی کی قلت کا شکار رہے۔

تباہ کن سیلاب اور خشک سالی

گزشتہ سال آبی حوادث نے براعظم افریقہ کو سب سے زیادہ متاثر کیا جہاں لیبیا میں سیلاب کے باعث دو ڈیم ٹوٹ جانے سے 11 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور ملک کی 22 فیصد آبادی متاثر ہوئی۔ اس کے علاوہ شاخ افریقہ، جمہوریہ کانگو، روانڈا اور موزمبیق میں بھی سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔

امریکہ کے جنوبی حصے، وسطی امریکہ، ارجنٹائن، یوروگوئے، پیرو اور برازیل کو بڑے پیمانے پر خشک سالی کا سامنا رہا۔ برازیل میں دریائے ایمازون جبکہ بولیویا اور پیرو کی سرحد پر جھیل ٹیٹیکاکا میں پانی کی مقدار اب تک کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی۔

ماحول، زندگی اور معیشت کا نقصان

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس عرصہ میں گلیشیئروں کے حجم میں گزشتہ پانچ دہائیوں کے مقابلے میں غیرمعمولی کمی ریکارڈ کی گئی اور دنیا کے ہر خطے میں یہی صورتحال دیکھنے کو ملی۔

برف پگھلنے کے نتیجے میں 600 گیگا ٹن سے زیادہ پانی پیدا ہوا جس کی بڑی مقدار سمندر اور کچھ دریاؤں کا حصہ بن گئی۔

2023 معلوم تاریخ کا گرم ترین سال بھی تھا۔ اس دوران درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوا اور بہت سے علاقوں میں طویل خشک سالی دیکھی گئی۔

'ڈبلیو ایم او' کی سیکرٹری جنرل سیلیسٹ ساؤلو نے کہا ہے کہ یہ صورتحال موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات کا پتا دیتی ہے۔

ماحولیاتی نظام، زندگیاں اور معیشتیں شدید بارشوں، سیلاب اور خشک سالی کے ادوار کی صورت میں اس سے بری طرح نقصان اٹھا رہی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات

رپورٹ کے مطابق، 2023 کے وسط میں لا نینا سے ال نینو کی جانب منتقلی کی صورت میں فطری موسمیاتی تبدیلیوں کے علاوہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں آنے والی موسمیاتی تبدیلی بھی آبی صورتحال میں شدید نوعیت کی تبدیلیوں کا بڑا سبب ہے۔

سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ، بڑھتے درجہ حرارت کے باعث 'آبی چکر' کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ یہ غیرمتوقع اور تیزرفتار بھی ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا کے مختلف حصوں میں یا تو پانی کی قلت ہو جاتی ہے یا تواتر سے سیلاب آنے لگتے ہیں۔

نگرانی اور معلومات کا تبادلہ

سیلیسٹ ساؤلو کا کہنا ہے کہ دنیا میں تازہ پانی کے ذخائر کی حقیقی صورتحال کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔

جس مسئلے کا اندازہ نہیں لگیا جا سکتا اس پر قابو بھی نہیں پایا جا سکتا۔ اس رپورٹ کا مقصد آبی ذخائر کی نگرانی، ان کے بارے میں معلومات کے تبادلے، سرحد پار تعاون اور اندازوں کو بہتر بنانا ہے اور اس کی فوری ضرورت بھی ہے۔

'ڈبلیو ایم او' نے کہا ہےکہ یہ رپورٹ مشاہداتی معلومات تک رسائی اور ان کی دستیابی میں بہتری لانے کے مقصد سے تیار کی گئی ہے۔

خاص طور پر جنوبی دنیا میں پانی کی صورتحال کو درست طور سے جانچنا اور اس حوالے سے بہتر معلومات کا تبادلہ بہت ضروری ہے۔

ادارےکا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ پانی سے متعلق مسائل پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ کے بروقت عالمگیر انتباہ سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر کی جانے والی کوششوں کا مقصد آبی ذخائر کے بارے میں معلومات کا معیار اور آبی حوادث کی نگرانی اور ان کی پیش گوئی کو بہتر بنانا ہے تاکہ 2027 تک تمام لوگوں کو ایسی آفات سے بروقت آگاہی کی سہولت میسر آ سکے۔