سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کا اجلاس ، ملک بھر میں گیس شارٹ فال کی صورت حال اور گیس کی تلاش پر غور

جمعرات 19 دسمبر 2024 20:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 دسمبر2024ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کا اجلاس سینیٹر عمر فاروق کی زیر صدارت ہوا جس میں ملک بھر میں گیس شارٹ فال کی صورت حال اور گیس کی تلاش پر غور کیا گیا۔جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں حکام نے انکشاف کیا کہ گیس کی تلاش گزشتہ تین سالوں کے دوران 56 مختلف مقامات پر کی گئی ہے جس پر مجموعی طور پر 1230 ملین امریکی ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔

ان دریافتوں سے روزانہ تقریبا 7,696 بیرل تیل اور 260 ایم ایم سی ایف ٹی گیس پیدا کی گئی ہے۔ سینیٹر قرۃ العین مری نے مبینہ طور پر گیس کی روک تھام کے بارے میں دریافت کیا۔ ڈی جی گیس نے بتایا کہ نارتھ سائیڈ پر گیس پر قابو پا لیا گیا ہے،تاہم، جنوبی خطے میں شارٹ فال بنیادی طور پر گیس کی کمی کی وجہ سے ہے۔

(جاری ہے)

مزید برآں پاور سیکٹر کی کم طلب کی وجہ سے گیس پر قابو پالیا گیا ہے کیونکہ گھریلو سطح پر 1200 روپے کے ریٹ پر گیس فروخت کرنا معاشی طور پر ناقابل برداشت ہے جو پاور سیکٹر کو 3600 روپے کے ریٹ پر فروخت کیا جا رہا ہے۔

گیس پائپ لائن میں ایک مقام سے زیادہ گیس ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور ملک میں ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کی کمی بھی ہے۔سینیٹر قرۃ العین مری نے پٹرولیم ڈویژن پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقامی سطح پر پیدا ہونے والی گیس کی ترسیل اور ذخیرہ کرنے کا کوئی نظام نہ ہونے کے باوجود حکومت کا قطر کے ساتھ گیس کی درآمد کا معاہدہ ہے اور سب سے بڑھ کر گیس کمپنیاں آذربائیجان سے مہنگے داموں خریداری کر رہی ہیں۔

کمیٹی نے معاملہ ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ وزیر پیٹرولیم کمیٹی کو اس معاملے پر بریفنگ دیں گے۔کمیٹی نے ڈی جی پٹرولیم کنسیشن کی خالی اسامی پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ڈی جی پی سی کا عہدہ گزشتہ چار ماہ سے خالی ہے اور وزارت کو اس عہدے کے لئے کوئی موزوں اہل شخص نہیں مل سکا۔ کمیٹی نے وزارت کو ڈی جی پی سی کی خالی اسامی کو جلد از جلد پر کرنے کی سفارش کی۔

کمیٹی نے پرائیویٹ ممبر بل "پاکستان منرلز ریگولیٹری اتھارٹی بل 2024" پر بھی غور کیا۔ سینیٹر محمد عبدالقادر کا کہنا تھا کہ اس بل کا مقصد معدنیات کی صنعت کے فروغ کے لیے وفاقی سطح پر اتھارٹی قائم کرنا ہے۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ معدنیات کا شعبہ صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، تاہم مجوزہ اتھارٹی وفاقی سطح پر قائم نہیں کی جاسکی۔منیجنگ ڈائریکٹرپی ایم ڈی سی نے کمیٹی کو پی ایم ڈی سی آفس اور ایمپلائز کالونی کے قیام کیلئے پشاور ڈویلپمنٹ بورڈ سے 09 کنال اور 06 کنال اراضی کے حصول پر بریفنگ دی۔

حکام نے بتایا کہ پی ایم ڈی سی کے دفاتر 6 کنال اراضی پر تعمیر کیئے گے ہیں جو کمرشل مقاصد کے لئے خریدی گئی تھی۔ تاہم رہائشی مقاصد کے لیے حاصل کی گئی 09 کنال اراضی استعمال نہیں کی جاسکی اور یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے۔ پی ایم ڈی سی پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ 09 کنال کی آبادکاری چاہتا ہے اور یہ جلد حل ہوجائے گا۔گورنمنٹ ہولڈنگز پرائیوٹ لمیٹڈ (جی ایچ پی ایل) کے کام اور کارکردگی پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے عہدیداروں نے بتایا کہ ادارہ حکومت پاکستان کی ملکیت ہے اور اس کا مقصد پائیدار منافع کے ساتھ توانائی کی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہے۔

جی ایچ پی ایل نے اپنی آمدنی زیادہ تر تیل اور گیس سے حاصل کی اور ادارے نے گزشتہ مالی سال کے دوران ریکارڈ منافع حاصل کیا ہے۔اجلاس میں سینیٹرز قرۃ العین مری، سعدیہ عباسی، میر دوستین خان ڈومکی، سردار الحاج محمد عمر گورگیج، راجہ ناصر عباس، محسن عزیز، محمد عبدالقادر، سیکرٹری پیٹرولیم ڈویژن مومن آغا، چیئرمین اوگرا مسرور خان اور متعلقہ محکموں کے دیگر سینئر حکام نے شرکت کی۔