افغانستان میں امریکی ہتھیاروں میں سے زیادہ تر ہتھیا ر دہشتگرد گروپوں کو فرخت کئے جانے کا ا نکشاف

جمعہ 18 اپریل 2025 20:03

لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 اپریل2025ء) افغانستان میں طالبان کی جانب سے حاصل کیے گئے پانچ لاکھ امریکی ہتھیا روں میں سے زیادہ تر ہتھیار دہشتگرد دوسرے گروپوں کو فروخت کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپور ٹ کے مطابق افغانستان میں چھوڑے جانے والے امریکی ہتھیاروں میں سے زیادہ تر ہتھیا ر ضائع، فروخت، یا دوسرے گروہوں کو سمگل کیے جا چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ ہتھیار القاعدہ سے وابستہ گروہوں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ایک سابق افغان اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان نے 2021 میں افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد تقریبا 10 لاکھ ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

(جاری ہے)

ان ہتھیاروں کے ذخیرے میں امریکی ساختہ اسلحہ، جیسے ایم 4 اور ایم 16 رائفلز کے ساتھ ساتھ افغانستان کے قبضے میں موجود دیگر پرانے ہتھیار بھی شامل تھے جو دہائیوں سے جاری لڑائی کے بعد پیچھے رہ گئے تھے۔

ان میں سے زیادہ تر پچھلی افغان حکومت کو فراہم کیے گئے تھے۔ 2021 میں جب طالبان نے افغانستان میں پیش قدمی کی تو بہت سے افغان فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے یا اپنے ہتھیار اور گاڑیاں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ کچھ ساز و سامان امریکی افواج کے پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان نے گذشتہ سال کے اواخر میں دوحہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی کمیٹی کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کم از کم آدھے ہتھیار و آلات اب لاپتہ ہیں۔

فروری میں اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ اور یمن کی انصار اللہ تحریک سمیت القاعدہ سے وابستہ تنظیمیں طالبان کے زیر قبضہ ہتھیاروں تک رسائی حاصل کر رہی ہیں یا انھیں بلیک مارکیٹ سے خرید رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان نے مقامی کمانڈروں کو ضبط شدہ امریکی ہتھیاروں کا 20 فیصد اپنے پاس رکھنے کی اجازت دی اور اس کے نتیجے میں بلیک مارکیٹ پھل پھول رہی ہے۔

یہ کمانڈر طالبان سے وابستہ ہیں لیکن انھیں اکثر اپنے علاقوں میں خودمختاری حاصل ہوتی ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ طاقت کے استحکام کے لیے مقامی کمانڈروں اور جنگجوؤں کے درمیان ہتھیاروں کے تحائف دینے کا بڑا رواج ہے۔ بلیک مارکیٹ اب بھی طالبان کے لیے ہتھیاروں کا ایک بھرپور ذریعہ ہے ۔ قندھار کے ایک سابق صحافی نے برطانوی میڈیا کو بتایا کہ طالبان کے قبضے کے بعد ایک سال تک وہاں ہتھیاروں کی ایک کھلی مارکیٹ موجود تھی لیکن اب وہ واٹس ایپ کے ذریعے خفیہ ہو چکی ہے۔

دولت مند افراد اور مقامی کمانڈر نئے اور استعمال شدہ امریکی ہتھیاروں اور ساز و سامان کی تجارت کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر امریکی حمایت یافتہ افواج کی طرف سے چھوڑے گئے ہتھیار ہیں۔افغانستان کی تعمیر نو کے لیے امریکہ کے سپیشل انسپکٹر جنرل سیگر نے مزید کہا کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے افغانستان میں ساز و سامان کا سراغ لگانے کے لیے محکمہ دفاع کے طریقہ کار میں مشکلات موجود ہیں۔

سیگر نے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’ریاست نے ہمیں اپنے پیچھے چھوڑے گئے آلات اور فنڈز کے بارے میں محدود، غلط اور بے وقت معلومات فراہم کیں۔‘ تاہم محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان سے ہتھیار واپس حاصل کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہاں 85 ارب ڈالر کے جدید ہتھیار باقی رہ گئے ہیں۔