ہیٹ ویوزسے بچنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر درخت لگائے جائیں، الطاف شکور

حکومت ہیٹ ویو ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہی ، شہری جنگلات اور چھتوں پرہریالی،ہیٹ ویو کا ایک مؤثر حل ہے، ماحولیاتی کنٹرول کے اداروں کو کرپشن سے پاک کیا جائے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکیں،چیئرمین پاسبان

اتوار 20 اپریل 2025 19:00

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اپریل2025ء) پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے وائس چیئرمین الطاف شکور نے بدلتے ہوئے موسمی حالات، خاص طور پر کراچی میں وقت سے پہلے ہیٹ ویو پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہنگامی بنیادوں پر بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم شروع نہ کی گئی تو آئندہ مزید شدید ہیٹ ویوز آئیں گی۔عوام جاننا چاتی ہے کہ حکومت ہیٹ ویو ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔

اگر حکومت ذمہ دارانہ رویہ اپنائے تو قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ آخر کب تک این جی اوز بدانتظامی کا بوجھ اٹھاتی رہیں گی 2015امیں کرچی میں شدید ہیٹ ویو کے دوران ہزاروں لوگ جان کی بازی ہار گئے تھے لیکن حکومت اور معاشرے نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

(جاری ہے)

اس سانحے کو دس سال گزر چکے ہیںلیکن اب تک درختوں کی تعداد بڑھانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔

شہر میں فوری لاکھوں نئے درختوں کی ضرورت ہے۔ حکومت و عوامی سطح پر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو نتائج انتہائی سنگین بر آمد ہوں گے۔ ہیٹ ویوز، قحط اور شدید سیلاب ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتائج ہیں اور ماحولیات کی تباہی اس میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ حکومت اور معاشرے دونوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ شہریوں کی جانوں اور صحت کو بچایا جا سکے۔

شہری جنگلات اس مسئلے کا فوری حل ہے کیونکہ اس ماڈل کے تحت بڑی تعداد میں درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ لیاری و ملیر ندی اور کراچی کا طویل ساحل اربن فاریسٹری کے لیے بہترین مقامات ہیں۔ چھتوں پرہریالی بھی اس مسئلے کا ایک مؤثر حل ہے۔ بڑھتی ہوئی آلودگی ہیٹ ویو سمیت ماحولیاتی تبدیلی میں کردار ادا کر رہی ہے۔ فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں اور سڑکوں پر چلنے والی پرانی ناقص گاڑیوں کے خاتمے کے لئے حکومت کو مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا۔

ماحولیاتی کنٹرول کے اداروں کو کرپشن سے پاک کیا جائے تاکہ وہ بلا خوف و دباؤ اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکیں۔صحت کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ ہیٹ ویوز جیسی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔ سرکاری اسپتال بدانتظامی اور کرپشن کی تصویر بن چکے ہیں۔ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی حاضری یقینی نہیں ہوتی۔ ادویات بازار میں فروخت ہو جاتی ہیں اور زیادہ تر طبی و لیبارٹری مشینری کام کرنے کی حالت میں نہیں رکھی جاتی تاکہ نجی لیبارٹریوں اور اداروں کو فائدہ ہو۔ وزراء اور سرکاری افسران خود یا اپنے خاندانوں کے علاج کے لیے سرکاری اسپتال نہیں جاتے۔ اس افسوسناک صورتحال کی ذمہ داری خود حکومت پر عائد ہوتی ہے