اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 اپریل 2025ء) بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر گزشتہ دو دہائیوں کے سب سے ہلاکت خیز حملوں کے اثرات سے نبردآزما ہے۔ گزشتہ منگل کے روز پہلگام کے مشہور سیاحتی مقام پر مسلح افراد نے سیاحوں پر فائرنگ کی، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ ایک نسبتاً غیر معروف مسلح گروہ، دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) نے مبینہ طور پر اس حملے ذمہ داری قبول کی۔
اس کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ کئی دہائیوں پرانے ''پانی کے اشتراک کے معاہدے‘‘ کو معطل کر دیا، ایک اہم سرحدی گزرگاہ کو بند کرنے کا اعلان کیا، پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کیے اور اسلام آباد پر ''سرحد پار دہشت گردی‘‘ کو فعال کرنے کا الزام عائد کیا۔
پاکستانی حکام نے اس حملے میں کسی بھی قسم کی شمولیت سے انکار کیا ہے۔
(جاری ہے)
نریندر مودی حکومت کے اقدمات کے جواب میں اسلام آباد حکومت نے بھی بھارتی شہریوں کے ویزے منسوخ کرنے کے ساتھ ساتھ سرحدی تجارتی گزرگاہیں اور بھارتی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دیں۔
اس حملے نے کشمیر میں فعال عسکری گروہوں کے نیٹ ورک کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ اگرچہ ان میں سے بہت سے گروہوں پر پاکستان میں سرکاری طور پر پابندی عائد ہے لیکن بھارتی حکام کا الزام ہے کہ یہ گروہ ''پاکستان کی فوجی انٹیلی جنس کی حمایت سے سرحد پار‘‘ آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔
ماضی میں کچھ گروہوں نے اپنا نام تبدیل کیا، کچھ تقسیم ہو گئے لیکن ان کے مقاصد بڑے پیمانے پر ایک جیسے ہیں۔ ان میں سے کئی گروہ پہلے طالبان اور القاعدہ کے ساتھ مل کر لڑ چکے ہیں اور یہ اپنے مقاصد کو عالمی جہاد کے وسیع تر تناظر میں پیش کرتے ہیں۔ کشمیر کا عسکری منظر نامہ بدلتا رہتا ہے۔ گروہ اکثر وفاداریاں بدلتے ہیں اور جنگجوؤں کو بھی بانٹ لیتے ہیں، جس سے کشمیر کی بغاوت کو ٹریک کرنا، قابو کرنا یا اسے ختم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ذیل میں جموں و کشمیر میں فی الوقت فعال بڑے عسکری گروہوں کا جائزہ دیا گیا ہے۔
دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف)
دی ریزسٹنس فرنٹ سن 2019 میں بھارت کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد اُبھرا، اس آئینی ترمیم نے جموں و کشمیر سے اس کی خصوصی آئینی حیثیت چھین لی تھی۔ ٹی آر ایف سوشل میڈیا اور آن لائن فورمز پر ''کشمیر ریزسٹنس‘‘ کے نام سے کام کرتا ہے، جہاں اس نے حالیہ پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
یہ گروہ خود کو ایک سیکولر تحریک کے طور پر پیش کرتا ہے، جو واضح اسلامی عسکریت پسند بیانات سے دوری اختیار کرتی ہے۔ تاہم بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کی ایک شاخ ہے، جو اس کے لاجسٹک نیٹ ورکس اور وسائل استعمال کرتی ہے۔ بھارت نے ٹی آر ایف کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔
لشکر طیبہ (ایل ای ٹی)
لشکر طیبہ گروہ، جس کا ترجمہ ''صالحین کی فوج‘‘ یا ''پاکیزہ فوج‘‘ ہے، سن 1990 میں قائم ہوا اور خطے کے سب سے معروف مسلم عسکری گروہوں میں سے ایک ہے۔
برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا اور اقوام متحدہ سمیت کئی ممالک نے اسے غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد جموں و کشمیر پر بھارتی انتظامیہ کا خاتمہ ہے۔اسلام آباد نے سن 2002 میں اس پر پابندی عائد کی تھی، تاہم پاکستان میں قائم یہ گروہ اب بھی فعال ہے۔ بھارت اکثر اس گروہ پر نہ صرف کشمیر بلکہ پورے بھارت میں ہائی پروفائل مسلح حملوں کا الزام عائد کرتا ہے۔
پاکستان پر الزام ہے کہ وہ اس کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کر رہا۔لشکر طیبہ کی طرف سے عام طور پر حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی جاتی۔ اس کے کئی ارکان کو سن 2000 کے ریڈ فورٹ حملے میں ملوث ہونے کے جرم میں سزا دی گئی، جس میں تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس وقت بھی اس گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔ بھارتی اور بین الاقوامی تحقیقات کے مطابق سن 2008 کے ممبئی حملوں میں اس کے ارکان ملوث تھے، جن میں 160 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور بھارت کا مالیاتی دارالحکومت تین دن تک مفلوج رہا۔
دیگر سلفی- جہادی گروہوں کے برعکس لشکر طیبہ پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ تشدد یا حکومت پاکستان کو ہدف بنانے سے گریز کرتا ہے۔
حزب المجاہدین (ایچ ایم)
حزب المجاہدین گروہ سن 1989 میں قائم ہوا اور یہ کبھی کشمیر کا سب سے نمایاں عسکری گروہ تھا۔ یہ پاکستان کی بنیاد پرست جماعت اسلامی تحریک سے طویل عرصے تک وابستہ رہا۔ حالیہ برسوں میں، خاص طور پر اس کے اہم کمانڈرز، جیسے برہان وانی (سن 2016 میں) اور اس کے جانشین سبزار احمد بٹ (سن 2017 میں) کی ہلاکت کے بعد سے اس کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔
جیش محمد (جے ای ایم)
جیش محمد ایک سنی اسلامی گروہ ہے، جسے سن 2000 میں بنیاد پرست عالم مولانا مسعود اظہر نے قائم کیا تھا۔ مولانا مسعود اظہر کو ایک ہائی جیک کیے گئے بھارتی ایئرلائنز کے طیارے میں موجود 155 یرغمالیوں کے بدلے رہا کروایا گیا تھا۔
سن 2002 میں پاکستان میں پابندی کے باوجود یہ گروہ پاکستان کے کچھ حصوں، بھارت اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کھلے عام کام کرتا ہے۔
اس کے اعلان کردہ مقاصد میں کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ملانا ہے۔ یہ افغانستان میں بھی کام کرتا رہا، جہاں اس کا مقصد مغربی افواج کو افغانستان سے نکالنا تھا۔جیش محمد نے کئی ہائی پروفائل حملے کیے، جن میں سن 2001 میں جموں و کشمیر کی ریاستی قانون ساز اسمبلی کی عمارت پر خودکش بم دھماکہ بھی شامل ہے، جس میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور سن 2019 کا پلوامہ بم دھماکہ، جس میں ایک خودکش بمبار نے بھارتی نیم فوجی دستوں کے قافلے پر حملہ کر کے کم از کم 40 اہلکاروں کو ہلاک کیا۔
اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور کئی دیگر ممالک نے جیش محمد کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ اس کے لشکر طیبہ، طالبان اور القاعدہ کے ساتھ عملی روابط ہیں اور اس کے جنگجو پاکستان اور کشمیر کے ساتھ ساتھ سوویت-افغان جنگ کے افغان اور عرب جنگجوؤں پر مشتمل ہیں۔
البدر: جموں و کشمیر
البدر گروہ سن 1990 کی دہائی کے اوائل میں حزب المجاہدین سے الگ ہونے والا گروہ ہے، جو اپنے تجربہ کار جنگجوؤں کے لیے جانا جاتا ہے۔
ان میں سے بہت سے پہلے افغان ملیشیا کمانڈر گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کے ساتھ افغانستان میں سرگرم عمل رہے۔ یہ گروہ عالمی جہادی نیٹ ورکس سے روابط رکھتا ہے اور مبینہ طور پر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ملوث رہا ہے۔ تاہم ان اطلاعات کی آزادانہ تصدیق کرنا مشکل ہے۔انصار غزوات الہند (اے جی ایچ)
انصار غزوات الہند، جو سن 2017 میں قائم ہوا، کشمیر تنازعہ میں القاعدہ کی موجودگی کی نمائندگی کرتا ہے۔
القاعدہ فی الہند (اے کیو آئی ایس) کی سرکاری شاخ کے طور پر تسلیم شدہ یہ تنظیم نظریاتی طور پر کشمیر میں شریعت کے تحت ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔اس کے بانی ذاکر موسیٰ، جو حزب المجاہدین کے سابق کمانڈر تھے، نظریاتی اختلافات کی وجہ سے الگ ہوئے۔ اس تنظیم نے خود کو ایک خالص جہادی گروہ کے طور پر پیش کیا ہے، جو قوم پرستانہ اہداف کو مسترد کرتا ہے اور عالمی اسلامی مقاصد کو ترجیح دیتا ہے۔
ادارت: عاطف بلوچ