اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مئی 2025ء) خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک تجزیے کے مطابق فیس بک اور ایکس جیسے پلیٹ فارمز اب بھی ان حملوں کی غلط فوٹیج سے بھرے ہوئے ہیں جن میں کم از کم 60 افراد ہلاک اور ہزاروں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اے ایف پی کے حقائق کی چھان بین کرنے والے ماہرین نے سوشل میڈیا پر گردش کرتے ایسے بہت سے کلپس کی نشان دہی کی ہے، جن میں دراصل غزہ جنگ یا پھر یوکرین کی جنگ کو دکھایا گیا ہے۔
فوجی کشیدگی کے دوران غلط معلومات کا سیلاب
اے ایف پی کے مطابق بھارتی اور پاکستانی میڈیا اداروں نے بھی غلط معلومات کو بڑھاوا دیا، جن میں فوجی فتوحات کے جھوٹے یا ناقابل تصدیق دعوے بھی شامل ہیں، جن کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور نفرت انگیزی بڑھی۔
(جاری ہے)
جنگ میں کون ہارا؟ کون جیتا؟
کشمیر: حالیہ تصادم پاکستانی فوج اور بھارتی قوم پرستوں کے لیے کتنا سودمند؟
بین الاقوامی تعلقات کے تجزیہ کار اور اقوام متحدہ کے لیے فرانسیسی فوجی مشن کے سابق سربراہ جنرل ڈومینک ٹرینکوئنڈ کے مطابق، ''فوجی حقائق کو ثابت کرنا پیچیدہ ہے، کیونکہ حملوں کی حقیقت کے ساتھ ساتھ، جن کا پتہ لگانا مشکل ہے، مواصلاتی جنگ بھی جاری ہے۔
‘‘غلط معلومات پھیلانے کا سلسلہ بدھ سات مئی کو اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب بھارت نے پہلگام حملے کے تناظر میں پاکستان کے اندر میزائل حملے کیے، جن کا مقصد بھارت کے مطابق ''دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘‘ کو نشانہ بنانا تھا۔
بھارتی زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی شہر پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والے حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
نئی دہلی اس حملے کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کرتا ہے، تاہم پاکستان اس دعوے کی تردید کرتا ہے۔بھارتی فضائی حملوں کے پہلے مرحلے کے بعد پاکستانی فوج نے ایک فوٹیج شیئر کی جو اس سے قبل 2023ء میں غزہ پر اسرائیلی فضائی حملے کے بارے میں خبروں میں سامنے آ چکی تھی۔ یہ کلپ جلد ہی ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر نمودار ہوا لیکن بعد میں اے ایف پی سمیت متعدد میڈیا اداروں نے اسے واپس لے لیا۔
مصنوعی ذہانت اور ڈیپ فیک ٹولز کا استعمال
اس موقع پر مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر اور ویڈیو بھی بڑی تعداد میں پھیلائی گئیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر پاکستانی فوج کے ایک جنرل کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا کہ پاکستان دو طیارے کھو چکا ہے۔ اے ایف پی کے حقائق کی جانچ کرنے والوں کو پتہ چلا کہ یہ کلپ 2024ء کی پریس کانفرنس میں رد وبدل کر کے بنایا گیا تھا۔
یونیورسٹی آف مشی گن کے اسکول آف انفارمیشن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جویوجیت پال کا کہنا ہے، ''ڈیپ فیک ٹولز تک رسائی میں اضافے کی وجہ سے ہم نے ویڈیوز اور تصاویر دونوں میں مصنوعی ذہانت پر مبنی مواد کی ایک نئی لہر دیکھی۔‘‘
غیر منافع بخش اوپن آبزرویٹری آف نیٹ ورک انٹرفیرنس کے مطابق پاکستان نے بظاہر بھارتی حملوں کے دن ہی ایکس پر عائد ایک سال سے زائد پرانی پابندی اٹھا لی تھی۔
پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق کے ماہر اور سرگرم کارکن اسامہ خلجی نے اس حوالے سے کہا، ''بحران کے وقت میں، حکومت چاہتی تھی کہ اس کے عوام کی آواز کو پوری دنیا میں سنا جائے اور اسے مزید خاموش نہ کیا جائے، جیسا کہ قبل ازیں داخلی سیاسی مقاصد کے لیے صورتحال تھی۔‘‘
سائبر حملے اور غلط معلومات
پاکستان کی نیشنل سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (این سی ای آر ٹی) نے آٹھ مئی کو ''ای میلز، سوشل میڈیا، کیو آر کوڈ، اور میسیجنگ ایپس کے ذریعہ بڑھتے ہوئے سائبر حملوں اور غلط معلومات‘‘ کے بارے میں الرٹ جاری کیا تھا۔
بعد ازاں پاکستان کی وزارت اقتصادی امور اور کراچی پورٹ ٹرسٹ دونوں کی طرف سے کہا گیا کہ ان کے ایکس اکاؤنٹس ہیک کر لیے گئے ہیں۔
اس کے بعد ایکس پر شائع ہونے والی ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کی مصروف ترین بندرگاہوں میں سے ایک کراچی بندرگاہ پر بھارتی فوج نے حملہ کیا ہے۔ بعد میں اکاؤنٹ بحال کر دیا گیا اور پورٹ اتھارٹی نے تصدیق کی کہ وہاں کوئی حملہ نہیں ہوا تھا۔
سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر کریک ڈاؤن
دریں اثنا، بھارت نے پاکستانی سیاست دانوں، مشہور شخصیات اور میڈیا تنظیموں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو نشانہ بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا۔
حکومت نے ایکس کو 8,000 سے زیادہ اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کا حکم دیا اور ایک درجن سے زائد پاکستانی یوٹیوب چینلز پر مبینہ طور پر ''اشتعال انگیز‘‘ مواد پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان پر پابندی عائد کردی۔
بھارت کے پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) کے فیکٹ چیک نے بھی موجودہ بحران کے بارے میں 60 سے زائد دعووں کی تردید جاری کی ہے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مبینہ طور پر پاکستانی فوجی فتوحات سے ہے۔
آن لائن غلط معلومات کے سیلاب کے ساتھ ساتھ آف لائن نفرت انگیز تقاریر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ