Live Updates

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس میں وکیل منیر اے ملک کے دلائل مکمل، سماعت 19مئی تک ملتوی

جمعرات 15 مئی 2025 23:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 مئی2025ء) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس میں وکیل منیر اے ملک نے دلائل مکمل کرلیے ، کیس کی مزید سماعت 19مئی تک ملتوی کردی گئی ۔جمعرات کوسپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ججز کی سنیارٹی عدلیہ کی آزادی کیساتھ منسلک ہے۔ آرٹیکل 175-3 کے تحت عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ رکھا گیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا سینیارٹی کا تعین کون کرے؟ منیر اے ملک نے کہا کہ سنیارٹی کا تعین چیف جسٹس کریں گے۔

(جاری ہے)

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس کی جانب سے سنیارٹی کے تعین کا اختیار انتظامی ہے، چیف جسٹس کے انتظامی فیصلے کیخلاف متاثرہ فریق کہاں رجوع کرے گا؟ منیر اے ملک نے کہا متاثرہ فریق مجاز عدالت سے داد رسی کیلئے رجوع کرے گا۔

جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیئے ماضی میں لاہور ہائیکورٹ کے تین ججز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے لاہور ہائیکورٹ سے جسٹس سردار اسلم کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا۔ منیر اے ملک نے موقف اپنایا جسٹس سردار اسلم کی تقرری آرٹیکل 193 کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی، جسٹس سردار اسلم کا تبادلہ نہیں کیا گیا تھا، سردار اسلم کی بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ تعیناتی کی گئی تھی۔

صدر نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے تبادلے کا نہیں، تقرری کا اختیار استعمال کیا۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے اس وقت اٹھارہویں ترمیم اور جوڈیشل کمیشن نہیں تھا، اس وقت تقرری کا مکمل اختیار صدر پاکستان کے پاس تھا۔منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ ہر ہائیکورٹ کے جج کا حلف الگ اور حلف لینے والا بھی الگ ہوتا ہے، تبادلے پر آئے ججز کا عمل حلف اٹھانے سے مکمل ہوتا ہے۔

جب ایک جج دوسری ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہو کر آتا ہے اسکا آفس تبدیل ہوتا ہے، آئین کے تحت آفس تبدیل ہونے کے بعد حلف لینا ضروری ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے تبادلے پر آیا جج نیا حلف لے گا، اس پر آئین خاموش ہے، آرٹیکل 200 کو آرٹیکل 175اے سے ملا کر پڑھنے سے کبھی جج کا ٹرانسفر نہیں ہوگا، آرٹیکل 200 کو آرٹیکل 175 اے سے ملانا تو نئی تقرری ہوگی۔

کوئی جج مستقل جج کا حلف اٹھاتا ہی نہیں ہے، پہلے ایڈیشنل جج کا حلف ہوتا ہے پھر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے وہ مستقل ہوتا ہے، پھر اگر وہ جج چیف جسٹس بنے تو حلف لیتا ہے، ٹرانسفر کو نئی تعیناتی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وکیل منیر اے ملک نے موقف اپنایا جج کے ٹرانسفر کو عدلیہ کی آزادی کے تناظر میں دیکھا جائے۔اس موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل مکمل کرلیے۔

لاہور ہائی کورٹ بار کے وکیل حامد خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی 133سال پرانی ہے، ایسوسی ایشن کے پچیس ہزار وکلاء ممبرز ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے حامد خان صاحب، منیر اے ملک کافی دلائل دے چکے ہیں، کوشش کریں کہ منیر اے ملک کے دلائل نہ دہرائے جائیں۔ 10 مئی 2023 کو ججز نے خط لکھا یہ سارا معاملہ وہاں سے شروع ہوا، 2024 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے ایک اور خط لکھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے اس خط میں جسٹس محسن اختر کیانی کے دستخط نہیں ہیں۔ حامد خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کون سا کیس کہاں لگنا اسکا فیصلہ انتظامی کمیٹی کرتی ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیئے پشاور ہائیکورٹ میں بھی یہی پریکٹس ہے۔جسٹس شاہد بلال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کو کتنا اختیار دیا گیا، عامر رحمان صاحب، آپ نے بھی اس حوالے سے عدالت کو آگا کرنا ہے۔

وکیل حامد خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حلف صرف فارمیلیٹی نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے حامد خان صاحب آپ کب تک خطوط پڑھیں گے؟ کچھ آئینی سوالات بتا دیں، ان خطوط کا فائدہ نہیں یہ سب پڑھے ہوئے ہیں۔ ہم ان خطوط کا کیا کریں گے؟ یہ لارجر بینچ میں زیر سماعت ہیں۔ ہم اس معاملے پر نہ کوئی حکم دے سکتے ہیں اور نہ ہی سن سکتے ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ میں صرف حقائق سامنے رکھ رہا ہوں اور دلائل دینے کا میرا اپنا طریقہ کار ہے جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے دلائل کہ طریقے کار میں کوئی آئینی سوالات بھی لے آئیں جو متعلقہ ہوں۔ حامد خان نے کہا میں کچھ حقائق عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آئینی بینچ نے قانونی سوالات پر فیصلہ کرنا ہے۔ جسٹس شاہد بلال نے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے اس معاملے میں اپنی درخواست واپس کیوں لی؟ بعد ازاں عدالت نے ججز ٹرانسفر سے متعلق کیس کی سماعت 19 مئی تک ملتوی کردی۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات