کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مئی2025ء)رکن قومی اسمبلی ارشد عبداللہ وہرہ نے آنے والے وفاقی بجٹ 2025-26 کے لیے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی جامع تجاویز پیش کرے اور متحدہ بزنس فورم (ایم بی ایف) کی کراچی، سندھ اور پورے پاکستان کے معاشی مفادات کے مطابق پالیسیاں بنانے میں رہنمائی کرے۔
ارشد وہرہ نے ایم بی ایف وفد کے ہمراہ کے سی سی آئی کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا اگرچہ ایم کیو ایم نے اس سال اپنے بجٹ تجاویز تیار کر کے جمع کروائی ہیں لیکن ہم بالخصوص کراچی چیمبر کی اسٹریٹجک رائے حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ قومی سطح پر اہم اور حقیقی مسائل کو مؤثر طریقے سے اٹھایا جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کا اجلاس22 مئی کو ہوگا اور اور ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ کے سی سی آئی کی تجاویز کو حمایت کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ جامع اور کاروبار دوست اصلاحات کے لیے مضبوط انداز میں وکالت کی جا سکے۔
(جاری ہے)
اجلاس میں چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا، صدر کے سی سی آئی جاوید بلوانی، سینئر نائب صدر ضیاء العارفین، نائب صدر فیصل خلیل احمد، سابق صدور جنید ماکڈا، محمد ادریس اور افتخار احمد شیخ، منیجنگ کمیٹی ممبران کے علاوہ ایم بی ایف کے وفد نے شرکت کی جس میں ایم این اے سید حفیظ الدین، ایم این اے جاوید حنیف، ایم این اے حسن صابر، ایم پی اے طحیٰ حیدر، ایم پی اے ماذ محبوب، ایم پی اے شارق جمال اور سابق صدر کے سی سی آئی سعید شفیق شامل تھے۔
ایم این اے ارشد وہرہ نے شہر کے اہم مسائل کو اجاگر کرنے پر کے سی سی آئی کی بے لوث کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ کے سی سی آئی نے بجلی، گیس، پانی کی قلت، ٹیکسیشن، انفراسٹرکچر کی خرابی اور صنعتوں کی زبوں حالی جیسے اہم مسائل پر ہمیشہ مضبوط آواز بلند کی۔ہم ان مسائل کی سنگینی اور فوری توجہ طلب ہونے کی نوعیت کو تسلیم کرتے ہیں اور پائیدار حل کے لیے مل کر کام کرنے کے پُرعزم ہیں۔
انہوں نے کراچی کے قومی معیشت میں اہم کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ شہر قومی خزانے کا 67 فیصد سے زائد، سندھ کے ریونیو کا 90 فیصد سے زائد اور پاکستان کی برآمدات میں 54 فیصد حصہ ڈالتا ہے لیکن اس کے باوجود کراچی کا کاروباری ماحول مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی زون سائٹ ایریا تین دہائیوں سے پانی کے بحران کا شکار ہے اور دیگر صنعتی زونز کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔
انہوں نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بڑھتے ہوئے بوجھ پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ تنخواہ دار طبقہ ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے یہ عدم توازن دور ہونا چاہیے۔ہم ریٹیل اور غیر دستاویزی شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے قابل عمل اقدامات سے آئی ایم ایف کے دباؤ کے باوجود تنخواہ دار طبقے پر دباؤ کم کر سکتے ہیں۔انہوں نے تاجر برادری کو متحد ہونے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کے سی سی آئی اور صنعتی ایسوسی ایشنز کے تعاون اور اخلاقی حمایت سے ہم تبدیلی لانے اور کراچی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ایک مضبوط اتحاد بنا سکتے ہیں۔
چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے بذریعہ زوم خطاب کرتے ہوئے ایم بی ایف کے قیام کو کراچی کی تاجر برادری کے ساتھ ہم آہنگی بڑھانے کے لیے ایک مثبت اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فورم شہر کے دیرینہ مسائل کو مشترکہ طور پر حل کرنے کی صحیح سمت میں ایک قدم ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ پانی اور بجلی کی قلت عوامی بحث کا مرکز ہے لیکن بے روزگاری کراچی کا سب سے سنگین مسئلہ ہے۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ لوگ خوراک کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ بے روزگاری کی وجہ سے بھوکے سوتے ہیں۔یہ بے روزگاری سماجی بے چینی، اسٹریٹ کرائم، دہشت گردی اور انتہاپسندی کا باعث بن رہی ہے۔زبیر موتی والا نے کہا کہ صنعتیں صرف زندہ رہنے کے لیے اپنی سرگرمیاں محدود کر رہی ہیں جس کی وجہ سے صنعتی ترقی مکمل طور پر رکی ہوئی ہے۔نہ نئی صنعتیں لگ رہی ہیں اور نہ ہی موجودہ صنعتیں بڑھ رہی ہیں جو بے روزگاری اور معاشی زوال کی بنیادی وجہ ہے۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسی عملی پالیسیاں بنائے اور نافذ کرے جو صنعتی ترقی کو فروغ دیں اور حقیقی معنوں میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ہو۔کوئی بھی سرمایہ کار تب تک سرمایہ کاری نہیں کرے گا جب تک منافع کی ضمانت نہ ہو۔یو اے ای میں سرمایہ کاروں کو25 سال کے لیے بجلی کے فکسڈ نرخ کی سہولت حاصل ہے اور اور اجازت نامے 48 گھنٹوں میں مل جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں یہی عمل سالوں تک جاری رہتا ہے۔
چیئرمین بی ایم جی نے ایم بی ایف کو مشورہ دیا کہ وہ موجودہ صنعتوں کے بلا رکاوٹ کام کرنے اور نئی سرمایہ کاری کے مواقع کھولنے پر توجہ مرکوز کرے۔ ہمیں ان اہم عوامل کا حل تلاش کرنا ہوگا جو صنعتی منافع کو کم کر رہے ہیں بالخصوص گیس اور بجلی کے زائد نرخوں جیسے عوامل کو حل کرنا ہوگا۔ موجودہ حالات میں نہ نفع نہ نقصان تک پہنچنا بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ گیس اور بجلی کے نرخ خطے کے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں مسابقتی ہونی چاہیے۔ہمارے اخراجات بنگلہ دیش جیسے ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ہماری مصنوعات عالمی سطح پر غیر مسابقتی ہو جاتی ہیں۔ ہم طویل عرصے سے حکومت اور اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس فرق کو اجاگر کرنے کے لیے ایک تقابلی مطالعہ کروائیں۔
قبل ازیں صدر کے سی سی آئی جاوید بلوانی نے ایم بی ایف کے وفد کا خیرمقدم کیا اور قومی اسمبلی میں کراچی کے مسائل اجاگر کرنے کی اُن کی مسلسل کوششوں کو سراہا۔ ہم کے سی سی آئی کے ساتھ ایم بی ایف کے مستقل رابطے کو سراہتے ہیں جس میں وفاقی سطح پر حل طلب اہم مسائل کی نشاندہی اور ترجیح دینے میں مدد ملتی ہے جنہیں وفاقی سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے امن وامان، کمزور انفراسٹرکچر اور بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل کو اجاگر کیا۔کے سی سی آئی نہ صرف کراچی کی تاجر برادری بلکہ پورے سندھ کی آواز اٹھانے میں ایک فعال کردار ادا کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔جاوید بلوانی نے ایم این ایز پر زور دیا کہ وہ وفاقی وزارتوں پر دباؤ ڈالیں تاکہ فوری اور ٹھوس اقدامات کیے جاسکیں۔ ہمیں اپنی اجتماعی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا اور اور یکجا ہو کر ایک مضبوط مؤقف پیش کرنا ہوگا۔ تب ہی ہم صوبائی و قومی سطح پر کراچی کے دیرینہ مسائل کے پائیدار حل کی توقع کر سکتے ہیں۔