فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ اتھارٹی منصوبوں کی تکمیل میں ناکام رہی ہے ، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہائوسنگ اینڈ ورکس

منگل 20 مئی 2025 22:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 مئی2025ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہائوسنگ اینڈ ورکس نے قرار دیا ہے کہ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ اتھارٹی منصوبوں کی تکمیل میں ناکام رہی ہے ۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہائوسنگ اینڈ ورکس کا اجلاس منگل کو سینیٹر ناصر محمود کی زیر صدارت اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں سی ڈی اے اور ایف جی ای ایچ اے کے منصوبوں میں تاخیر کی وجوہات اور دیگر محکموں کی جانب سے بغیر منظوری یا کرایہ کی ادائیگی کے بغیر سرکاری رہائش کے غیر مجاز استعمال کی نشاندہی کی گئی۔

اجلاس میں سینیٹرز بلال احمد خان، سیف اللہ ابڑو، حسنہ بانو، خالدہ عطیب، سیف اللہ سرور خان نیازی اور ہدایت اللہ خان نے شرکت کی۔کمیٹی کے چیئرمین نے پنجاب پولیس کی جانب سے لاہور کی وفاق کالونی میں وزارت ہاوسنگ اینڈ ورکس کی رہائش گاہوں کو غیر قانونی قابضین سے خالی کرانے کے حوالے سے کمیٹی کے تمام اراکین کے ان پٹ کو سراہا۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب پولیس نے مذکورہ رہائش گاہوں پر 1990 سے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے اور انہیں استعمال کرنے کے عوض کبھی ایک پیسہ بھی ادا نہیں کیا۔

پنجاب پولیس نے کمیٹی کی طرف سے دی گئی ہدایات پر تعمیلی رپورٹ جمع کرائی اور آگاہ کیاکہ کمیٹی کی ہدایات پر پنجاب پولیس نے سال 2024 تک 1.6 ملین روپے کرایہ کی مد میں جمع کرادیئے ہیں اور باقی کرایہ آئندہ مالی سال میں ادا کر دیا جائے گا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے فیڈرل لاجز، وفاق کالونی، دھانا سنگھ والا، لاہور میں وزارت ہاوسنگ اینڈ ورکس کی عمارت کے استعمال کے لیے مارچ 2021 سے کرایہ کی عدم ادائیگی پر بھی سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔

یہ انکشاف ہوا کہ مجموعی طور پر480 ملین روپے ابھی تک وزارت کو ادا نہیں کیے گئے جبکہ عمارت بھی ابھی تک خالی نہیں کی گئی۔ مزید بتایا گیا کہ اس معاملے پر فیصلہ وزیراعظم آفس میں زیر التوا ہے۔ کمیٹی کو یہ بھی پتہ چلا کہ اس حوالے سے دونوں محکموں کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ چیئرمین نے وزارت ہاوسنگ اینڈ ورکس کی غفلت پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے متعلقہ محکموں پر زور دیا کہ وہ ایسے طریقوں کی حوصلہ شکنی کریں اور معاہدوں پر دستخط کرتے وقت دستاویزات کی شفافیت کو برقرار رکھیں۔ چیئرمین نے دونوں محکموں کو ایک ماہ میں معاملہ نمٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر وہ کمیٹی کے فیصلے پر عمل درآمد میں ناکام رہے تو غفلت میں ملوث افسران کو طلب کر کے سزا دی جائے گی۔

اسلام آباد جیل کی تعمیر پر پیش رفت کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ یہ منصوبہ پی ڈبلیو ڈی کی جانب سے سی ڈی اے کے حوالے کیا گیا تھا 26جون 2024 کو اس کی نظرثانی شدہ لاگت 7.4 بلین روپے تھی۔ فیز I میں ایڈمن بلاک اور باونڈری وال کی تعمیر 98 فیصد تک مکمل ہو چکی ہے اور سڑکوں اور انفراسٹرکچر کا 75 فیصد تک کام مکمل ہو چکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ منصوبہ بندی اور ترقی کی وزارت کی جانب سے فنڈز میں تاخیر منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کا سبب بنی۔ کمیٹی نے وزارت خزانہ اور دیگر متعلقہ حکام کی جانب سے فنڈز کی فراہمی میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا اور ہدایت کی کہ وزارت منصوبہ بندی و ترقیات اور وزارت خزانہ کو سی ڈی اے کے منصوبوں کے لیے فنڈز جاری کرنے میں تاخیر پر کمیٹی کو بریف کرنے کے لیے طلب کیا جائے۔

شہید ملت بلڈنگ میں لفٹس کی خرابی کے معاملے پر چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ پانچ میں سے صرف ایک لفٹ کام کر رہی ہے۔ ایک اور لفٹ کی مرمت کی گئی تھی، لیکن تین ابھی تک کام نہیں کر رہیں تاہم سی ڈی اے نے فوری طور پر تین لفٹوں کی مرمت کے لیے 120 ملین روپے کا ٹینڈر نوٹس جاری کر دیا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ شہید ملت بلڈنگ اور دیگر سرکاری دفاتر میں کچھ لفٹیں خاص طور پر وی آئی پیز/سینئر افسران کے لیے مختص ہیں اور ملازمین کو ان کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔

کمیٹی نے سرکاری عمارتوں میں اس وی آئی پی کلچر کا سخت نوٹس لیا اور سی ڈی اے کو ہدایت کی کہ وہ اس طرح کے رواج کو ختم کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام لفٹیں عام لوگوں کی رسائی میں ہوں۔وزارت ہاوسنگ اینڈ ورکس کے جوائنٹ سیکرٹری نے کمیٹی کو وفاقی ملازمین کو سرکاری رہائش کی الاٹمنٹ کے لیے سنیارٹی لسٹ پر بریفنگ دی۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت کے پاس 26 ہزار درخواستیں زیر التوا ہیں جبکہ اسلام آباد میں صرف 17 ہزار گھر دستیاب ہیں۔

کمیٹی نے بریفنگ کو ناکافی پایا اور وزارت کو ہدایت کی کہ وہ غیر قانونی الاٹمنٹ کی فہرست اور ایسے غیر قانونی طریقوں میں ملوث افسران کے نام فراہم کرے۔ کمیٹی نے بحالی کمیٹی کے تمام کام بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے وزارت کو کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ایف جی ای ایچ اے فرموں کو یکساں طور پر ٹینڈر نہیں دے رہا ہے، اپنے پروجیکٹس کو سنجیدگی سے آگے نہیں بڑھا رہا اور مکمل شدہ پراجیکٹس کوالاٹیز تک پہنچانے میں ناکام رہا ہے۔

سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے ایف جی ای ایچ اے کے پراجیکٹس کی بڑھتی ہوئی لاگت کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کا بوجھ آخری صارفین پر پڑتا ہے۔ کمیٹی نے ایف جی ای ایچ اے کو تمام جاری منصوبوں کی فہرست پیش کرنے کی ہدایت کی جس میں مکمل تفصیلات اور متعلقہ اخراجات شامل ہیں۔