Live Updates

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کی سماعت 26 مئی تک ملتوی کردی

جمعہ 23 مئی 2025 16:00

سپریم کورٹ  کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر اور ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 مئی2025ء) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کی سماعت پیر 26 مئی تک ملتوی کردی ۔ سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے جمعہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفرز کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بھارت میں ججز سے ٹرانسفر پر رضامندی نہیں پوچھی جاتی، جج سنیارٹی کے ساتھ ٹرانسفر ہوتا ہے، جوڈیشل کمیشن کیلئے ججز کی تقرری لازم ہے، صدر پاکستانکے لئے جج کا تبادلہ کرنا لازمی نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ صدر مملکت کے پاس تبادلے کا آئینی اختیار ہے، صدر مملکت کو تبادلے کیلئے کوئی کیسے مجبور کر سکتا ہے، آپ اپنے دلائل ججز کے ٹرانسفر تک محدود رکھیں۔

(جاری ہے)

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے آپ نے دلائل کے آغاز میں کہا تھا کہ ججز ٹرانسفر پر صدر کے اختیار کو نفی نہیں کرتے۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا کہنا تھا دلائل میں سنیارٹی کے ایشو پر فوکس کروں گا۔

وکیل فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ میرا نکتہ یہ ہے کہ جج کا تبادلہ ٹائم باونڈ ہے، فیڈرل شریعت کورٹ میں ہائیکورٹس سے ججز تعینات ہوتے ہیں، ان ججز کی تعیناتی تین سال کیلئے ہوتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ فیڈرل شریعت کورٹ میں ججز کی تعیناتی یا تبادلے کے ایشو سے کیا تعلق ہے؟ ہائیکورٹ سے جج کی شریعت کورٹ میں تعیناتی کا درجہ اوپر ہے، ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں جج کے تبادلے کا سٹیٹس برابر ہوتا ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ جسٹس آصف ایڈیشنل جج تھے، ایڈیشنل جج کی تبادلے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کیسے تقرری ہو سکتی ہے؟ کیا جوڈیشل کمیشن جسٹس آصف کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی کارکردگی کی بنا پر مستقل کرنے کا فیصلہ کرے گا؟ جوڈیشل کمیشن کو تو جسٹس آصف کی بلوچستان ہائیکورٹ میں بطور ایڈیشنل جج کارکردگی دیکھنا ہوگی، چیف جسٹس کی ٹرانسفر نہیں ہو سکتی لیکن قائم مقام چیف جسٹس کی ٹرانسفر ہو سکتی ہے۔

فیصل صدیقی نے کہا منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں الجہاد کیس کا حوالہ دیا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے آئین میں چیف جسٹس کی تعریف کیا ہے؟ قائم مقام چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن میں نام لے کر آتے ہیں۔ آپ نے ٹائم باؤنڈ کی بات کی ،کوئی وجہ تو دیں کہ کیوں ٹائم باؤنڈ ہوتا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا میں آپکو وجوہات بیان کروں گا کہ ٹائم باؤنڈ کیوں ضروری ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا بھارت میں بھی ٹائم باؤنڈ کا تصور ہے؟ ہمارا آرٹیکل 200 اور انکا بھی آرٹیکل ہے، کہیں ٹائم باؤنڈ کے حوالے سے نہیں لکھا۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیئے آئین میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ ٹرانسفر محدود وقت کیلئے ہوگی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا بھارت میں تو جج ٹرانسفر سے انکار کرے اسے گھر جانا پڑتا ہے، پاکستان میں ٹرانسفر ہونے والے جج سے اس کی رضامندی پوچھی جاتی ہے، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مثال موجود ہے، انھوں نے سپریم کورٹ آنے سے انکار کیا، پھر بھی وہ بطور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ فرائض سرانجام دیتے رہے، سپریم کورٹ کسی گزشتہ قانون سازی کی ہسٹری کی بنیاد پر کیسے فیصلہ کر سکتی ہے؟ بنیادی سوال ہی یہی ہے کہ ٹرانسفر ہوکر آنے والا جج نیا حلف لے گا یا نہیں، آپ کے اور درخواست گزاران کے وکلا کے دلائل میں اختلاف ہے۔

آپ نے دلائل میں کہا کہ ٹرانسفر ہونے والے جج کو نیا حلف لینا پڑے گا، دوسری طرف کہا جارہا ہے ٹرانسفر مستقل نہیں ہوسکتی، ایک جج پہلے ایک حلف اٹھائے گا، پھر ٹرانسفر ہوکر نئی ہائیکورٹ میں حلف اٹھائے گا، پھر محدود وقت کے بعد وہی جج واپس اپنی ہائیکورٹ جاکر دوبارہ حلف اٹھائے گا، ایک جج ایک ہی وقت میں دو یا تین تین حلف کیسے لے سکتا ہے؟ ایک جج ٹرانسفر ہوکر آئے، پھر واپس جاکر دوبارہ حلف اٹھائے تو اس کی پہلی سروس تو ساری ختم ہو گئی۔

جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیئے سوال یہ بھی اٹھے گا سینارٹی کہاں سے شمار ہوگی۔ فیصل صدیقی نے کہا دو سینیارٹی لسٹیں ہوں گی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ فرض کریں جسٹس ڈوگر صاحب ٹرانسفر پر حلف اٹھائیں، پھر دوبارہ اپنی پرانی ہائی کورٹ کا حلف اٹھاتے ہیں، وہاں تو ان کی سینارٹی سب سے نیچے ہو جائے گی، ایسے میں تو سینارٹی کا نیا تنازعہ کھڑا ہو جائے گا، اگر بھارت کی طرح پاکستان میں بھی تمام ہائیکورٹس میں اکھٹی طے شدہ سینارٹی لسٹ ہوتی تو الگ بات تھی، پاکستان میں ہائیکورٹس کے ججز کی سینارٹی لسٹ الگ الگ ہے، ایک جج کے ایک وقت میں دو یا تین حلف کیسے ہو سکتے ہیں؟ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے اگر آرٹیکل 200 کے تحت مستقل جج تعینات ہو سکتا ہے تو پھر ایسے میں تو جوڈیشل کمیشن غیر موثر ہو جائے گا، جو تین ججز ٹرانسفر ہوکر آئے انھوں نے اپنی اپنی ہائیکورٹس میں الگ الگ حلف اٹھایا، ایک جج حلف میں کہتا ہے اس نے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں، بغیر حلف لئے تو کوئی جج فیصلے ہی نہیں کر سکتا نہ ہی کیس سن سکتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا اگر ایک جج نیا حلف لے گا تو پرانا حلف تو ختم ہو جائے گا، سپریم کورٹ میں ایکٹنگ جج اور ٹرانسفر جج میں فرق ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ آئین کا آرٹیکل 200 پہلے آیا، اسلام آباد ہائی کورٹ بعد میں بنی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایکٹ میں لکھا ہوا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اور 12 دیگر ججز پر مشتمل ہوگی، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز تعیناتی کا ذکر ہے، ٹرانسفر کا ذکر نہیں ہے، ایکٹ میں لکھا ہوا ہے ججز چاروں صوبوں سے لئے جائیں گے، ہائیکورٹس کا ذکر نہیں ہے، اگر ٹرانسفر کیا جانا ہوتا تو قانون میں ایسا لکھ دیا جاتا، جسٹس سرفراز ڈوگر کی تعیناتی سے 10 روز پہلے جوڈیشل کمیشن کا ایک اجلاس ہوا، اس اجلاس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیشن جج راجہ جواد عباس کے نام پر غور ہوا، اگر بلوچستان سے مستقل جج لانا تھا تو سیشن جج راجہ جواد عباس کا نام کیوں ڈراپ کیا گیا؟ یہ سوال اٹارنی جنرل سے بھی ہے، وہ آئندہ سماعت پر جواب دیں۔

بعد ازاں عدالت نے ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی سے متعلق کیس کی سماعت پیر 26مئی تک ملتوی کردی۔ کراچی بار کے وکیل فیصل صدیقی آئندہ سماعت پر بھی دلائل جاری رکھیں گے۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات