Live Updates

پاکستان میں خوردنی تیل کی درآمدی لاگت 5 ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر گئی ہے،،زرعی ماہرین

منگل 27 مئی 2025 20:25

پاکستان میں خوردنی تیل کی درآمدی لاگت 5 ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر ..
 حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 مئی2025ء) پاکستان میں خوردنی تیل کی درآمدی لاگت 5 ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر گئی ہے، جبکہ فی کس سالانہ تیل کا استعمال 24 کلوگرام سے بھی زیادہ ہو چکا ہے، جو ایک تشویشناک حد کو چھو رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ماہرین نے سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام اور پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) کے اشتراک سے "نرسری سے کھیت تک پام آئل پودوں کی منتقلی اور نگہداشت کی بہترین مہارتیں" کے موضوع پرمنعقدہ سیمینار میں کیا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فیکلٹی آف کراپ پروڈکشن کے ڈین ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر نے کہا کہ پام آئل پاکستان کیلئے ایک اہم فصل بن سکتی ہے، تاہم اس کے فروغ کیلئے مارکیٹ میں طلب پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح کسٹر آئل (ارنڈی کے تیل) کو دنیا بھر میں ہوابازی میں استعمال ہونے والے خصوصی لبریکنٹس اور کیمیکل مصنوعات کی تیاری میں اہمیت حاصل ہے، ویسے ہی پام آئل کو بھی عام صارف میں متعارف کرانا وقت کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

ڈائریکٹر جنرل زرعی تحقیق ڈاکٹر مظہر الدین کیریو نے حکومت، پالیسی ساز اداروں اور صنعتی شعبے سے اپیل کی کہ وہ پام آئل کے پراسیسنگ یونٹس کے قیام میں سرمایہ کاری کریں اور عوامی شعور اجاگر کرنے کیلئے خصوصی مہمات شروع کی جائیں۔ انہوں نے ٹشو کلچر پر مبنی اقسام پر تحقیق کو مزید آگے بڑھانے پر بھی زور دیا۔سدرن زون ایگریکلچر ریسرچ سینٹر (پی اے آر سی) کے ڈی جی ڈاکٹر ذاکر حسین ڈاہری نے کہا کہ ملک میں تاحال سویا بین اور پام آئل کو بطور خوراک استعمال کرنے کی عادت نہیں اپنائی گئی، یہ تیل زیادہ تر ڈیٹرجنٹ اور صابن سازی کی صنعت میں استعمال ہو رہے ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک عام پاکستانی سالانہ 24 کلوگرام تیل، 26 کلوگرام چینی اور 3 کلوگرام نمک استعمال کرتا ہے، جو دنیا کے کئی ممالک سے دو گنا زیادہ ہے۔منصوبے کے پرنسپل انویسٹیگیٹر ڈاکٹر اللہ ودھایو گانداہی نے کہا کہ پام آئل کی کاشت کے حوالے سے کسانوں کی دلچسپی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ پراسیسنگ یونٹس اور مارکیٹ کی طلب کا فقدان ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر مربوط حکمت عملی کے تحت تحقیق، پالیسی سازی اور بنیادی ڈھانچے پر کام کیا جائے تو سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں پام آئل کی کاشت زرعی ترقی کا نیا باب کھول سکتی ہے۔نیوکلئیر انسٹیٹیوٹ آف ایگریکلچر کے شعبہ سوائل سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر نظام الدین ڈیپر نے کہا کہ سندھ کا زرعی و موسمی ماحول پام آئل کی کاشت کیلئے انتہائی موزوں ہے۔

انہوں نے خیرپور میں موجود ڈیٹ پام انسٹیٹیوٹ کے ساتھ مل کر ٹشو کلچر پر تحقیق کو وسعت دینے کی تجویز دی۔کو-پرنسپل انویسٹیگیٹر ڈاکٹر محمد سلیم سرکی نے منصوبے کے طویل المدتی وژن پر روشنی ڈالی۔سیمینار میں ڈاکٹر عبدالمبین لودھی، ڈاکٹر غلام مرتضی جامڑو، ڈاکٹر محرم علی قمبرانی، امداد علی سوھو، ثنااللہ سولنگی، ڈاکٹر صائمہ کلثوم ببر اور دیگر ماہرین و محققین نے بھی شرکت کی۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات