Live Updates

جامعات کی خودمختاری، علمی آزادی خطرے میں ڈال دی گئی ہے، ماہرینِ تعلیم کا اظہارِ تشویش

تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے، لیکن بدقسمتی سے مالی بدانتظامی اور غیر دانشمندانہ پالیسیاں اس حق کی فراہمی میں رکاوٹ بن رہی ہیں،ڈاکٹرتوصیف احمدخان

بدھ 28 مئی 2025 22:00

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 مئی2025ء) مختلف جامعات سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ تعلیم اور دانشوروں نے حالیہ قانون سازی اور انتظامی اقدامات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یونیورسٹیوں کی خودمختاری، علمی آزادی کو بری طرح مجروح کیا جا رہا ہے، جو پاکستان کی اعلی تعلیم کے مستقبل کے لیے خطرناک اشارہ ہے۔ انہوں نے پنشن اور تنخواہوں کے حصول کی جدوجہد کے دوران وفاقی اردو یونیورسٹی کے 9 اساتذہ اور 4 غیر تدریسی عملے کے اراکین کے انتقال کرجانے پر بھی دلی افسوس کا اظہار کیا اور اس معاملے پر ریاست اور جامعہ کی انتظامیہ کی سرد مہری کی مذمت کی۔

وفاقی اردو یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی، اور دیگر اداروں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ نے ایک اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیوروکریٹس کو وائس چانسلر مقرر کرنا نہ صرف علمی روایات کی نفی ہے بلکہ دنیا بھر کے تعلیمی نظاموں سے انحراف بھی ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر عاصم بشیر خان نے کہا کہ حکومت کو وائس چانسلر کی تقرری کا اختیار ضرور حاصل ہے، لیکن بیوروکریٹس کو علمی اداروں کا سربراہ بنانا یونیورسٹی کی خودمختاری کے خلاف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسے عہدوں پر علمی شخصیات کو مقرر کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر توصیف احمد خان نے زور دیا کہ تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ریاست کی ذمہ داری بھی، لیکن بدقسمتی سے مالی بدانتظامی اور غیر دانشمندانہ پالیسیاں اس حق کی فراہمی میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ وفاقی اردو یونیورسٹی میں پنشن فنڈز کو دیگر اخراجات میں استعمال کیا گیا، اور 2017 سے ریٹائر ہونے والے اساتذہ اب تک بقایاجات سے محروم ہیں۔

روشن علی سومرو کے مطابق، اساتذہ کو وقت پر تنخواہوں اور مراعات کی ادائیگی نہ کرنا بدترین مالیاتی بدنظمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں کو ریاستی ترجیحات میں شامل کرنا ضروری ہے، ورنہ سول سوسائٹی کی اجتماعی جدوجہد ہی واحد امید ہے۔ڈاکٹر ریاض شیخ نے کہا کہ ریاست نے اساتذہ کو "سستا مزدور" بنا دیا ہے، اور علمی آزادی کی جگہ نظریاتی جمود نے لے لی ہے۔

اگر یہ روش جاری رہی تو یونیورسٹیاں محض رٹے کے مراکز بن جائیں گی، جہاں تحقیق اور تنقید کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے نشاندہی کی کہ مالی بحران نے نہ صرف پالیسی سازی کو متاثر کیا ہے بلکہ علمی آزادی بھی دبا میں آ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنسوں کے موضوعات اور مقررین کی منظوری لینا غیر آئینی عمل ہے، اور ہائیر ایجوکیشن پالیسی سازی میں اساتذہ و طلبہ کی شمولیت کے بغیر پالیسی بے معنی ہے۔

ڈاکٹر اختیار نے کہا کہ جامعات میں وائس چانسلر کی تقرری کے لیے قائم سرچ کمیٹیوں میں شفافیت کا شدید فقدان ہے، اور معاہداتی اساتذہ علمی آزادی سے محروم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سینیٹ کے رکن مسرور احسن نے اساتذہ کی علمی آزادی کے تحفظ کے لیے پارلیمان میں آواز بلند کرنے کا وعدہ کیا ہے۔اسد اقبال بٹ نے کہا کہ قانون سازی میں ماہرین اور عوام کی مشاورت نہ ہونا اداروں پر سے اعتماد اٹھا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم و تحقیق کو نظرانداز کرنا ملک کو مستقل پسماندگی میں دھکیل رہا ہے، اور ہیومن رائٹس کمیشن تعلیمی بحران کو اجاگر کرتا رہے گا۔اساتذہ نے مطالبہ کیا ہے کہ یونیورسٹیوں کی خودمختاری، اساتذہ کی مالی اور پیشہ ورانہ آزادی، اور پالیسی سازی میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ نیز، طلبہ یونینز کی بحالی، بجٹ کی منصفانہ تقسیم، اور علمی قیادت کو فیصلہ سازی میں اولیت دی جائے۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات